اسرائیل کے خاتمہ تک جنگ جاری رہے گی۔لیاقت بلوچ


اٹک(صباح نیوز) نائب امیر جماعت اسلامی، صدر مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور لیاقت بلوچ نے اسماعیل ہانیہ، حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد حماس کے نومنتخب سربراہ یحیی السنوار کی شہادت کی مصدقہ اور غیرمصدقہ اطلاعات پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ غزہ فلسطین، لبنان، شام  و ایران میں ہونے والی شہادتیں مجاہدین کا حوصلہ نہیں توڑ سکتیں؛ عظیم رہنماں، مجاہدین کی یہ شہادتیں اسرائیلی صیہونی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مجاہدین کی مزاحمت،  جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت  کو مزید تقویت  دینے کا باعث بنیں گی  اور اسرائیل کے خاتمہ تک یہ جنگ جاری رہے گی۔  انہوں نے  7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی جارحیت کے خلاف غزہ میں برسرِپیکار مجاہدین کی قیادت کرنے والے یحیی السنوار کو زبردست خراج   تحسین  پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی صیہونی ظلم و جبر اور جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہنے والے مجاہدین کی قربانیاں اور شہادتیں فلسطینی تحریکِ مزاحمت کا سنگِ مِیل ثابت ہورہی ییں۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد دو ہفتوں سے محصور ہے، عوام کے لیے ناقابلِ بیان مشکلات پیدا کردی گئی ہیں۔ سیاسی جمہوری پرامن احتجاج کو روکنے کے لیے ریاست، حکومت، پولیس انتظامیہ کی طرف سے غیرآئینی، غیرجمہوری حربوں کے ذریعے عوام کی زندگی کو اجیرن بنادیا گیا ہے۔ حکومت موٹروے، جی ٹی روڈ، اسلام آباد، راولپنڈی کی سڑکیں بلاک کررہی ہے اور وفاقی دارالحکومت کو عالمی سطح پر خود بدنامی اور رسوائی کا باب بنادیا گیا ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے، طلبہ و طالبات کے احتجاج کو سنجیدہ لے اور اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ عوام کے سیاسی، جمہوری، پرامن احتجاج کا حق تسلیم کیا جائے۔ حکومت اپنی حکمتِ عملی سے سماج کو تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی کا شکار کررہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ضلعی دفتر جماعت اسلامی دارالسلام کالونی اٹک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پنجاب شمالی اقبال  خان، امیر ضلع اٹک  سردار امجد علی خان اور دیگر ضلعی و مقامی ذمہ داران و کارکنان بھی موجود تھے۔آئینی ترامیم کے حوالے سے لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکومت  نادیدہ قوتوں کے اشارے پر دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود متنازعہ آئینی ترمیم کو منظور کرانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگارہی ہے، وزیر اعظم وسیع تر عوامی مفاد میں اس غیرآئینی، غیرجمہوری عمل سے ہاتھ کھینچ لیں، وگرنہ تاریخ انہیں آئین شکن کے طور پر یاد رکھے گی۔ انہوں نے  کہا کہ پہلے مسلم لیگ(ن)، پی پی پی اور اب جے یو آئی سمیت تینوں جماعتوں کا اتحاد متنازعہ  آئینی ترامیم کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے کے لیے ہوا ہے، قوم ایسے کسی غیرآئینی عمل کو قبول نہیں کرے گی۔ قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ذاتی مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے کبھی دوستی تو کبھی دشمنی کی یہ نوراکشتی اب عوام جان گئی ہے۔ آئینی ترامیم کے نام پر دراصل یہ اتفاق نہیں بلکہ مک مکا ہے۔ سچ یہ ہے کہ حکومت ایک ایسی ترامیم لا رہی ہے جس سے پاکستان کا متفقہ دستور متنازع ہوجائے گا اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا بحران مزید گھمبیر صورت اختیار کرجائے گا۔ عدالتی اصلاحات ہونی چاہئیں لیکن اس مقصد کیلئے آئینی ترامیم کا جو ڈھونگ رچایا جا رہا ہے اس کی پشت پر مقاصد کچھ اور ہیں، جبکہ فارم 47 کی بنیاد پر بننے والی حکومت کی اپنی حیثیت بھی متنازع ہے اور اسکے پاس دو تہائی اکثریت بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتحادیوں سے بلیک میل ہو رہی ہے۔ اس لیے بدنیتی کی بنیاد پر لائی گئی آئینی ترامیم کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوسکتیں۔ لہذا حکومت  متفقہ آئین کو متنازع بنانے سے باز رہے۔

انہوں  نے کہا کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعتِ اسلامی کے وفد نے پاکستان تحریک انصاف کی لیڈرشپ سے بھی ملاقات کی اور ہم نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ اگر آپ ان آئینی ترامیم کو متنازع اور بدنیتی پر مبنی سمجھتے ہیں تو پھر حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ حکومت اور اس کے اتحادی مذاکرات میں اپوزیشن کو شامل کر کے اپنی مرضی کا آئینی ترمیمی پیکج لانا چاہتے ہیں، تاکہ یہ تاثر جائے کہ اپوزیشن کو اس کی حمایت حاصل ہے۔ جماعت اسلامی ایسے متنازع آئینی ترامیم کو مکمل طور پر مسترد کرتی  ہے  ۔  ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت نان ایشوز کو بڑے ایشوز بنا کر عوام کے ساتھ دھوکہ اور کھلواڑ کی بجائے مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، لاقانونیت، فوری اور بروقت انصاف کی عدم فراہمی، ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی، بدامنی، بجلی، گیس کے بھاری بھرکم بلز، پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں اور ناقابلِ برداشت ٹیکسز جیسے عوامی مسائل پر توجہ دے۔ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، انہیں اِن آئینی ترامیم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حکومت انتخابی جلسوں/جلوسوں میں عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرے، جماعتِ اسلامی کیساتھ دھرنام مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے پر بلاتاخیر عملدرآمد کرکے بجلی کی قیمتوں یں خاطرخواہ اور فوری کمی لائے، کیپیسٹی پیمنٹ کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدے ختم کیے جائیں۔ جماعتِ اسلامی اپنا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں رکھتی، ہمارا ایجنڈا بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، ادویات، اشیائے خورد و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لاکر عوام کو ریلیف دِلانا ہے۔ اگر حکومت نے ان عوامی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی تو پھر ہم نومبر میں ان مسائل کو لے کر پورے ملک میں عوامی ریفرنڈم کرائیں گے اور پھر انشا اللہ عوام ہی آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ جماعتِ اسلامی کسی صورت عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

شنگائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کے پاکستان میں کامیاب انعقاد کے حوالے سے لیاقت بلوچ نے کہا کہ کانفرنس کا انعقاد پاکستان کیلئے دوررس نتائج کا حامل ہوگا، ہم نے اس کا خیر مقدم کیا ہے، کانفرنس کا  اعلامیہ آگیا، مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوگئے، اب عملدرآمد کے لیے کمر کسنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کیساتھ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی ملاقات اور بھارت سے تعلقات کی بات کے حوالے سے جماعتِ اسلامی کا  مقف بالکل واضح اور دوٹوک ہے کہ ہندوستان میں مودی سرکار کی فاشزم اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم پر  مبنی اقدامات کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی باتیں کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی اور قائد اعظم کیساتھ بیوفائی کے مترادف ہے۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ کی متعدد قراردادیں کشمیریوں کو حق خود ارادیت کی حمایت کرتی ہیں۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے ہماری تجویز پر جس طرح فلسطین آل پارٹیز قومی کانفرنس منعقد کی اسی طرح کشمیر پر بھی قومی آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے تاکہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا دیرینہ قومی مقف سامنے آسکے۔ لاہور کے ایک نجی کالج میں طالبہ کیساتھ ہونے والے افسوسناک واقعہ کے حوالے سے لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے متضادات دعوے اور اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔  ہمارا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنے جو اس پوری صورتحال کی ہر زاویے  سے تحقیق کرے۔ بعض تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر بے حیائی پھیلائی جارہی ہے، مادر پدر آزادی کا نظریہ اجاگر کرکے نظریہ پاکستان اور اسلام کے سنہری اصولوں سے اجتناب کیا جاریا ہے، انٹرنیشنل این جی اوز اور فورمز کے دبا پر مرد و زن کا اختلاط اور طالبات کے کالجز میں مردوں کی تعیناتی نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف مائل کرنے اور تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کا سبب ہے۔ لہذا اس قسم کے واقعات سے چشم پوشی کی بجائے سبق سیکھنے اور نئی نسل کے مستقبل کی حفاظت کیلئے  ٹھوس اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔