لاہور(صباح نیوز) نائب امیر جماعتِ اسلامی لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ قومی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ بدترین اور گہرے ہوتے سیاسی بحران کا جلد از جلد حل تلاش کرے،نئے چیف جسٹس کی تقرری تک آئینی ترمیم کا ارادہ ترک کردیا جائے۔
وزیرآباد، کھاریاں، سرائے عالمگیر، جہلم میں معززین، سیاسی ورکرز اور سماجی رہنماؤں کی میٹنگز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی پاکستان میں کانفرنس اچھا اقدام ہے، وزیراعظم مسلسل عالمی لیڈرز سے ملاقاتوں کی خوب تشہیر کررہے یں اور طوفانی دوروں پر بھی رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی بدترین شرائط کے سامنے سرنڈر کرکے پروگرام منظور کرانے کا کریڈٹ بھی لیا جارہا ہے لیکن کوئی بھی یہ نوِشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نہیں کہ 2013، 2018 اور اب 2024 کے انتخابات کے بعد ملک کا مسلسل ہولناک سیاسی بحران، خطرناک تقسیم اور زہریلی پولرائزیشن اِن تمام حکومتی اقدامات پر حاوی ہوجاتا ہے۔ مایوسی، بے یقینی، ناامیدی نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ قومی سیاسی جمہوری قیادت کی ذمہ داری ہے کہ بدترین اور گہرے ہوتے سیاسی بحران کا جلد از جلد حل تلاش کرے، ضِد، انا اور ہٹ دھرمی کو ترک کرنا ہوگا۔ ذاتی اورپارٹی مفادات پر مبنی ہٹ دھرم رویوں کی پوزیشن سے پیچھے ہٹ کر بحران ختم کرنا ہوگا، یہی رویہ قومی سلامتی، قومی یکجہتی کا ضامن اور ملک و قوم کو موجودہ سیاسی، اقتصادی بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ وزیراعظم خود اور اسٹیبلشمنٹ کی بااختیار فیصلہ ساز قوتوں کو اپنے رویوں سے رجوع کرنا ہوگا۔
لیاقت بلوچ نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ آئینی ترامیم کا تنازعہ شدت اختیار کررہا ہے، 1973 کا دستور متفقہ قومی دستاویز ہے،ایسی حکومت جس کا مینڈیٹ متنازع اور مشکوک ہو، اتحادیوں کو ملاکر اس کے پاس آئینی ترمیم کے لئے دوتہائی اکثریت بھی نہ ہو اور پارلیمنٹ کے اندر جماعتوں کی حمایت کے لئے انہیں لالچ دے کر یا کسی دیگر طریقہ سے بلیک میلنگ ہورہی ہو، کرائے پر لوگوں کو اکٹھا کیا جارہا ہو، ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہو، تو ایسی قانون سازی یا آئینی ترمیم بدنیتی اور سیاہ قانون ہی کہلائے گا۔ موجودہ آئینی بحران کا اِس وقت یہی حل ہے کہ نئے چیف جسٹس کی تقرری تک آئینی ترمیم کا ارادہ ترک کردیا جائے۔ آئین کو متنازع بنانے کا ملک دشمن رویہ ترک کیا جائے ، حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دے تاکہ عام الناس میں مایوسی و ناامیدی کا خاتمہ ہو۔ل
یاقت بلوچ نے کہا کہ پانچ آئی پی پیز کے متعلق اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہیں، جماعتِ اسلامی کے دھرنا مذاکرات میں واضح کردیا تھا کہ 15 آئی پی پیز ایسی ہیں جو صریحاً مفت خوری کررہی ہیں، معاہدوں کے مطابق پلانٹ نہیں لگائے، ان کا خاتمہ اور اِن کو اداشدہ رقم واپس لی جائے۔ بگاس سے بجلی پیدا کرنے والے شوگر ملز کے پلانٹ کے لئے کیپیسٹی پیمنٹ کی ڈالر میں ادائیگی کا خاتمہ کیا جائے اور حکومت اپنے 52 فیصد ملکیتی آئی پی پیز کا مسئلہ حل کرے۔ چین 23 فیصد آئی پی پیز چلا رہا ہے، بااعتماد دوست ملک سے قومی مفاد میں بات چیت کرکے معاہدوں کو درست کیا جائے۔ حکومت آئی پی پیز کے متعلق اقدامات کے ساتھ ساتھ عوام اور صارفین کو فوری ریلیف بھی دے۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر ریلیف سے معاشی پہیہ چلے گا، بیروزگاروں کو روزگار ملے گا اور عام آدمی کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا، نوجوانوں کو مستقبل کی مایوسیوں سے بچانے کے لئے باعزت روزگار دینا حکومت کا قومی فرض ہے۔