اسرائیل میں اب تک تئیس امریکی سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں۔انیس سو پچانوے سے پہلے اسرائیل میں کوئی امریکی یہودی سفیر مقرر نہیں ہوا۔البتہ آج تک جتنے بھی سفیر آئے ان میں سے اکثر غیر علانیہ صیہونی ضرور رہے۔اس کے برعکس آج تک مشرقِ وسطی کے کسی عرب ملک میں کسی مسلمان امریکی کو سفیر مقرر نہیں کیا گیا۔بلکہ اسرائیل میں سفیر کے درجے پر فائز ہونے سے پہلے اکثر سفارت کار مشرقِ وسطی کے دیگر ممالک میں اہم سفارتی ذمے داریاں نبھاتے رہے یا پھر اس خطے سے متعلق امریکا پالیسی کو ایک خاص سمت میں برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے اپنا رسمی و غیر رسمی کردار مسلسل ادا کیا ۔
مثلا اسرائیل کے لیے پہلے امریکی سفیر جیمز گروور میکڈونلڈ پروفیشنل سفارت کار نہیں تھے بلکہ انھیں مارچ انیس سو انچاس میں ریاستِ اسرائیل کی تشکیل کے سلسلے میں ان کی سابقہ خدمات کے پیشِ نظر پہلا سفیر مقرر کیا گیا۔
جیمز میکڈونلڈ انیس سو تینتیس تا پینتیس لیگ آف نیشن کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیناں رہے اور اس حیثیت میں انھوں نے جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں ستائے یہودیوں کی فلسطین منتقلی کے لیے سفارتی حمائیت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس دور میں ان کی سرکردہ صیہونی رہنما خائم ویزمین سے دوستی ہوئی۔ ویزمین بعد ازاں اسرائیل کے پہلے صدر بنے۔جیمز میکڈونلڈ پناہ گزینوں سے متعلق صدر روز ویلٹ کے بھی مشیر رہے۔
وہ انیس سو پینتالیس میں بننے والی اینگلو امریکن انکوائری کمیٹی برائے فلسطین کے ممبر بھی تھے۔اس کمیٹی نے سفارش کی کہ یورپ میں ستائے ہوئے ایک لاکھ یہودیوں کی فلسطین میں ہنگامی آبادکاری ضروری ہے۔اسرائیل کی تشکیل کے ڈیڑھ ماہ بعد امریکی محکمہ خارجہ کی مخالفت کے باوجود صدر ہیری ٹرومین نے جون انیس سو اڑتالیس میں جیمز میکڈونلڈ کو اسرائیل کے لیے ناظم الامور مقرر کیا اور مارچ انیس سو انچاس میں انھیں باضابطہ سفیر بنا دیا گیا۔
اپنے پونے دو سالہ دور میں جیمز میکڈونلڈ نے نوزائیدہ اسرائیلی معیشت کے لیے امریکی بینکوں سے قرضوں کی فراہمی میں سرگرم کردار ادا کیا۔ابتدا میں امریکی انتظامیہ نے مغربی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔چنانچہ امریکی محکمہ خارجہ نے اس شہر میں اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کے پہلے افتتاحی اجلاس میں سفیر جیمز میکڈونلڈ کو شرکت سے منع کر دیا۔مگر میکڈونلڈ نے متنازعہ مغربی یروشلم میں اسرائیلی وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان سے ملاقات کر کے امریکی محکمہ خارجہ کی غیر علانیہ پابندی کو جوتے کی نوک پے رکھا۔
میکڈونلڈ نے یہودی دھشت گرد تنظیم سٹیرن گینگ کے لیڈر مینہم بیگن کے امریکا میں داخلے پر پابندی اٹھوانے اور انھیں ویزا جاری کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور کامیاب ہو گئے۔ مینہم بیگن انیس سو ستتر میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنے۔
جیمز میکڈونلڈ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکی صیہونی تنظیموں میں سرگرم رہے۔ان کی نجی ڈائریاں واشنگٹن کے نیشنل ہالوکاسٹ میوزیم کے آرکائیوز میں رکھی ہوئی ہیں۔ ان کی والدہ جرمن تھیں لہذا جرمن ایک طرح سے ان کی مادری زبان تھی۔
چار جلدوں میں شایع ہونے والی ان کی ڈائریوں سے پتہ چلتا ہے کہ انیس سو تیس کے عشرے میں لیگ آف نیشن کے نمایندے کے طور پر نازی حکام سے بات چیت میں جیمز میکڈونلڈ کو اندازہ ہو گیا کہ نازی یہودیوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔مگر ان کے انتباہ کو امریکا سمیت لیگ آف نیشنز کے کسی رکن نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ستمبر انیس سو چونسٹھ میں جیمز میکڈونلڈ کا انتقال ہو گیا۔ان کے نام کی ایک سڑک اسرائیلی شہر نتانیا میں موجود ہے۔
وال ورتھ باربر اگرچہ اسرائیل میں امریکا کے پانچویں سفیر تھے مگر وہ اس عہدے پر انیس سو اکسٹھ تا تہتر ( بارہ برس ) برقرار رہے اور اس حیثیت میں تین امریکی صدور کی اسرائیلی امور پر مشاورت کی۔اسرائیلی وزیرِاعظم گولڈا مائر نے وال ورتھ کے بارے میں ایک بار کہا کہ جب وائٹ ہاؤس میں نکسن اور اسرائیل میں والی ( وال ورتھ ) موجود ہو تو پھر کسی امریکن اسرائیل فرینڈ شپ سوسائٹی کی کیا ضرورت ہے۔
ان کے سفیر ہوتے ہوئے اسرائیل کا خفیہ جوہری پروگرام شروع ہوا۔ اسرائیل نے جون انیس سو سڑسٹھ میں مصر سے جزیرہ نما سینا اور اردن سے مغربی کنارہ چھین لیا۔جولائی انیس سو بیاسی میں وال ورتھ کا انتقال ہو گیا۔ان کے نام پر اسرائیلی قصبے ایون یہودہ میں ایک اسکول بنایا گیا اور تل ابیب میں ایک محلہ بھی معنون ہے۔
آٹھویں امریکی سفیر سیموئیل لوئس اسرائیل میں آٹھ برس ( ستتر تا پچاسی ) برقرار رہے۔انھیں دو امریکی صدور ( کارٹر اور ریگن ) کا اعتماد حاصل رہا۔ سیموئیل نے اسرائیل اور مصر کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے مذاکراتی عمل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس سمجھوتے کے نتیجے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو سفارتی طور پر تسلیم کیا اور اسرائیل نے صحراِ سینا مصر کو لوٹا دیا۔سیموئیل دو ریاستی حل کے پرجوش حامی تھے اور بش جونئیر کی عراق پالیسی کے ناقد بھی تھے۔ان کا مارچ دو ہزار چودہ میں انتقال ہوا۔
مارٹن انڈک تیرہویں امریکی اور پہلے یہودی نژاد سفیر تھے۔انھوں نے انیس سو پچانوے تا ستانوے اور سن دو ہزار تا دو ہزار ایک اس عہدے پر کام کیا۔بعد ازاں مارٹن اگلے سترہ برس امریکا خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے والے ایک سرکردہ تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر رہے۔
مارٹن کا تعلق ایک پولش یہودی خاندان سے ہے۔اس خاندان نے پہلے آسٹریلیا ہجرت کی۔پھر انیس سو بیاسی میں نیویارک میں آباد ہوا۔مارٹن نے آسٹریلیا کے علاوہ اسرائیل کی ہیبرو یونیورسٹی سے بھی پڑھا۔اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران انھوں نے اسرائیل میں بطور رضاکار کام کیا۔ اس دوران انھوں نے اسرائیلی شہریت لینے کے بارے میں بھی سوچا۔
مارٹن کی مشرقِ وسطی امور پر گہری نظر ہے۔ انھوں نے جان ہاپکنز یونیورسٹی ، کولمبیا یونیورسٹی اور تل ابیب کے موشے دایان ریسرچ سینٹر میں مشرقِ وسطی سے متعلق کورسز بھی پڑھائے۔کلنٹن دور میں وہ قومی سلامتی کمیٹی کے بھی رکن رہے اور اس حیثیت میں اسرائیل عرب تعلقات، عراق اور خلیج کے امور پر پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کیا۔وہ امریکا اسرائیل سائنس و ٹیکنالوجی کمیشن سے بھی وابستہ رہے۔
اس سے قبل مارٹن امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی ( ایپک ) میں ریسرچ ڈائریکٹر اور ایک امریکی این جی او نیو اسرائیل فنڈ کے بورڈ میں بھی شامل رہے۔ اس حیثیت میں انھوں نے مختلف اسرائیلی تحقیقی اداروں کے لیے تین سو ملین ڈالر فنڈنگ بھی اکٹھی کی۔
جولائی دو ہزار تیرہ تا جون دو ہزار چودہ صدر بارک اوباما نے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی میں مفاہمت کے لیے مارٹن انڈک کو خصوصی ایلچی مقرر کیا۔ وہ امریکی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے والے ایک اور اہم تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز سے بھی وابستہ رہے۔ پچیس جولائی دو ہزار چوبیس میں مارٹن انڈک کا انتقال ہو گیا۔
اگرچہ مارٹن انڈک اسرائیل میں سفیر مقرر ہونے والے پہلے امریکی یہودی تھے۔مگر اکثر ریٹائرڈ بیورو کریٹس کی طرح مارک نے بھی اسرائیلی پالیسیوں کو جانبداری کی عینک اتار کے ناقدانہ نگاہوں سے دیکھنے کی کوشش کی۔
دو ہزار چودہ میں اسرائیل فلسطین تنازعے سے متعلق خصوصی امریکی ایلچی کے منصب سے سبکدوشی کے بعد مارک انڈک نے اسرائیلی اخبار یہود آہرنوت کو بنا نام کا ایک انٹرویو دیا۔اخبار نے ایک سینیر امریکی سفارت کار کے حوالے سے بتایا کہ اس کی رائے میں یہودیوں کے بارے میں ایک عمومی تاثر ہے کہ وہ ذہین لوگ ہیں اور مستقبل کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے رویوں میں لچک لانے کی بھی خوبی پائی جاتی ہے۔مگر لگتا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر وہ آس پاس کا بدلتا ماحول پڑھنے سے قاصر ہیں۔انھیں اب اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اکیسویں صدی کی دنیا کسی بھی علاقے پر قبضہ برداشت نہیں کرے گی۔الٹا یہ قبضہ اسرائیل کی طویل المیعاد بقا خطرے میں ڈال سکتا ہے۔فلسطینی بالاخر اپنی ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔چاہے تشدد کے ذریعے یا عالمی برادری کی حمائیت کے نتیجے میں۔اسرائیل کو نوشتہ ِ دیوار پڑھنا چاہیے ۔
مارٹن انڈک کے بعد بھی جو سفیر اسرائیل بھیجے گئے ان میں سے اکثر یہودی شجرے کے تھے۔ اس کی تاویل دفترِ خارجہ کے اہلکار آف دی ریکارڈ یہ کرتے ہیں کہ کسی سفیر کا یہودی ہونا اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اور سماج کو اور بہتر سمجھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔مگر یہ اصول صرف اسرائیل کے لیے ہی کیوں۔ کسی عرب امریکی شہری کو کسی عرب ملک میں آج تک امریکی سفیر کیوں مقرر نہیں کیا گیا۔کیا عرب سماج کا مزاج سمجھنے کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت نہیں ؟ شاید نہیں۔ (سلسلہ جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس