تصوراتی دنیا اور حقیقی دنیا! : تحریر سہیل وڑائچ


ہر سوچنے والے نے اپنی ایک تصوراتی دنیا بنا رکھی ہوتی ہے، اکثر اپنی اس تصوراتی دنیا میں اس قدر مگن اور خوش رہتے ہیں کہ اس دنیا سے باہر کی حقیقی دنیا میں جھانکتے تک نہیں، یوں وہ اس اندھے کنویں میں قید ہونے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ یہی اصلی دنیا ہے چونکہ حقیقی دنیا کے حقائق تلخ ہوتے ہیں جو نظریات پر ضرب لگاتے ہیں، خیالات کو جھنجوڑتے ہیں، دل و دماغ کو تکلیف دیتے ہیں اور وہ جو کچھ آپ نے عمر بھر سوچ کر ذہن میں پختہ کررکھا ہوتا ہے اسے غلط قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ہم سب حقیقی دنیا سے نظریں چرا کر اپنے سکون کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں، یاد رکھیے کہ ہر ترقی نہ کرنے والی قوم کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنی تصوراتی دنیا میں قید رہتی ہے اس تصوراتی دنیا میں باہر سے تازہ ہوا بھی اندر آئے تو اسے ناگوار گزرتی ہے۔ برٹرینڈرسل اور آج کے فلاسفہ اور سائنس دانوں نے مسلم اور عیسائی دنیا کے جن ادوار کو ’’تاریک دور‘‘ قرار دیا تھا، یہ وہی زمانے تھےجن میں تازہ افکار اور نئے خیالات پیش کرنے والے کوباغی، غدار یا کافر قرار دے کر اسے یا حکومت سزا دے دیتی تھی یا پھر چرچ یا مفتیانِ کرام اس کےخلاف فتوے دے دیتے تھے، وگرنہ پھر اندھے کنویں میں بسنے والا معاشرہ اس پر پتھر اٹھالیتا تھا۔ گلیلیو کو عیسائی دنیا کی مذہبی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑا تو ابن رشد کو اسلامی دنیا کی انتہا پسندی راس نہ آئی۔ یہ سلسلہ مذہب، سائنس یا معاشرتی رویوں تک محدود نہیں اس کے اثرات سیاست پر بھی پڑتے ہیں آج کے تضادستان کی سیاست بھی دو دنیاؤں میں بٹی ہوئی ہے کوئی بھی تصورات کی دنیا سے حقائق کی دنیا میں آنا نہیں چاہتا۔

تحریک انصاف ہو یا نون لیگ، پیپلزپارٹی ہو یا مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی، سب اپنی اپنی تصوراتی دنیا میں قید ہیں اور تو اور مقتدرہ اور نون لیگ جو موجودہ ہائبرڈ حکومت کے اتحادی ہیں اور ہاتھ میں ہاتھ دیئے آگے بڑھ رہے ہیں وہ بھی متفقات کے علاوہ بہت سے اختلافات کا شکار ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ دونوں کی تصوراتی دنیائیں الگ الگ ہیں۔ آئی ایم ایف کا پیکیج ملنے سے حکومت کو بقول شخصے سانس لینے کا موقع مل گیا ہے، حکومتی نظام چل پڑا ہے مگر ترقیاتی اخراجات کیلئے اب بھی کوئی پیسہ نہیں ہے اس لئے حکومت نہ کوئی بڑا ریلیف دے سکتی ہے نہ اراکین اسمبلی کو بجٹ دے کر خوش کرسکتی ہے۔ دوسری طرف شہباز حکومت سے دو شکایات ابھی تک گردش میں ہیں، پہلی شکایت یہ ہے کہ ڈیلیوری نہیں ہورہی اور دوسری یہ کہ شہباز حکومت نہ سیاست پر بولتی ہے نہ سیاست کرتی ہے اور نہ اس کی سیاسی حمایت سے مقتدرہ کو کوئی مدد مل رہی ہے۔ وفاقی وزراء ہر اہم فیصلے میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کرکے ڈیلیوری نہ ہونے کا جواز پیش کردیتے ہیں۔ وزیراعظم کے ایک ساتھی نے نوکر شاہی کی پیچیدگیوں کو ڈیلیور نہ ہونے کی اصل جڑ قرار دیا بظاہر ان دونوں خرابیوں کے ٹھیک ہونے کا فوری امکان بھی کوئی نہیں، دوسری طرف مقتدرہ کے پاس شہباز شریف سے بہتر فی الحال کوئی چوائس بھی نہیں اس لئے یہ نظام اسی طرح چلے گا۔ نظام کے چوکڑیاں بھرنے کا فی الحال دور دور تک کوئی امکان نہیں کچھوے کی رفتار سے کچھ زیادہ بس ،حکومت استطاعت سے زیادہ لدے ہوئے ٹٹو کی سپیڈ سے چلتی رہے گی، اداروں کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی کے بعد پنجاب حکومت کو جو فری ہینڈ حاصل تھا اب اس کی سخت مانیٹرنگ شروع ہوجائے گی،پہلے پنجاب کئی اداروں اور اشخاص کے دائرہ کار سے باہر تھا اب ایسا نہیں رہے گا۔

دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف بھی اپنی تصوراتی دنیا میں مقید ہے، اسے حقیقی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا نہ ادراک ہے اور نہ یہ کوشش کر رہی ہے کہ ان تبدیلیوں کو جان کر اپنی پالیسی میں ان کے مطابق تبدیلی لائے۔تحریک انصاف کی قیادت کے اندازے مسلسل غلط ثابت ہو رہے ہیں، نہ فوج کے اندر بغاوت ہو ئی نہ عدلیہ نے عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی انقلابی قدم اٹھایا اور نہ ہی عوام کا کوئی ایسا جتھا نکلا جو حکومت اور مقتدرہ کو سرنگوں کر دے، نہ حکومت سے عدم تعاون کی اپیلوں نے کام کیا اور نہ باہر نکل کر احتجاج کرنا اتنا موثر ہوا کہ حالات بدل جائیں، نہ پارلیمان کے اندر موجود بھاری اکثریت کی موجودگی حکومت اور مقتدرہ کو مذاکرات پر آمادہ کر سکی نہ ان کی وجہ سے عمران خان کو ایک بھی رعایت ملی۔اوورسیز پاکستانیوں کی بھرپور اکثریتی حمایت کے باوجود دنیا کے کسی دارالحکومت نے ابھی تک مقتدرہ یا اسلام آباد پر اتنا دباؤ بھی نہیں ڈالا کہ وہ کسی غیر ملکی سفارتکار ہی سے مل سکیں، یاد رکھیں کہ جب نواز شریف قید ہوئے تھے تو برطانیہ نے دباؤڈال کر جنرل مشرف کو مجبور کیا تھا کہ ایم پی چودھری سرور کونواز شریف سے جیل میں ملوایا جائے اور یوں یہ ملاقات ممکن ہو گئی تھی، ابھی تک تحریک انصاف کے حق میں سوائے چند عدالتی فیصلوں کے کوئی معجزہ رونما نہیں ہوا اور اگر آئینی ترامیم منظور ہوگئیں تو تحریک انصاف کی عدالتی ایوانوں سے امیدیں بھی ٹوٹ جائیں گی۔ تحریک انصاف اپنی تصوراتی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں کیوں نہیں آتی؟سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیوں نہیں کرتی؟محمود اچکزئی کو بااختیار کیوں نہیں بناتی؟آئی ایم ایف کاپیکیج منظور ہونے کے بعد تحریک انصاف کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ لمبی اور پرامن سیاسی جدوجہد کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ۔جتنی جلد اس راستے پر چل پڑے اتنا ہی بہتر ہے ۔

آج کل مولانا کی سیاست کا غلغلہ ہے اندرونی حلقے کہتے ہیں کہ ترمیم کیلئےنمبر تو پورے ہیں مولانا کی مہر کی ضرورت اس لئے ہے کہ اندرون اور بیرون ملک ترمیم کی قبولیت بہتر طور پر ہو سکے۔لگتا ہے کہ مولانا کو بھی کسی ایک یعنی مقتدرہ یا اپوزیشن میں سےکسی ایک کو اپنانا پڑے گا، وہ اگر اپوزیشن کی طرف مکمل جھکتے ہیں تو مقتدرہ کے التفات سے محروم ہو جائیں گے اور اگرمقتدرہ کی طرف نرمی دکھاتے ہیں تو تحریک انصاف پھر سے ان کی مذمت شروع کر دے گی گویا چند دن میں ہی ان کی مرکزی اہمیت ایک نہ ایک طرف لگ جائے گی۔بلاول بھٹو فرنٹ فٹ پر کھیل کر آئینی عدالت کی وکالت کر رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان کی یہ نئی سیاسی جارحانہ پالیسی کیا ان کیلئے پنجاب میں جگہ بنا سکے گی یا نہیں ؟

آخر میں آج کی حقیقی دنیا پر نظر دوڑائیں تو جنگ ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے ایران، اسرائیل امریکہ کے ساتھ جنگ کا بڑا فریق ہے اور ہمارا پڑوسی ہے، دوسرے پڑوسی افغانستان میں بھی تیزی سے تبدیلیاں متوقع ہیں ایک طرف طالبان لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔ داڑھی کے حوالے سے قانون بنایا گیا ہے، اسی طرح وہاں کی اپوزیشن اکٹھی ہو رہی ہے، اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایران اور افغانستان میں جنگ ہو اور پاکستان اس سے لاتعلق رہ جائے ؟مگر ہم ابھی تک اس صورتحال اور حقیقی دنیا سے آشنائی کے لئے تیار نہیں لگتے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ