یونہی ماضی کے کچھ گھاؤ دیکھنا چاہے تھے، تاریخ کی نمائش گاہ میں کچھ بے پرکھی پتواروں کا تذکرہ تھا۔ بات ابھی عالمی جنگ کے اختتام پر برطانوی ہند کی سیاست کے ان برسوں تک پہنچی تھی جہاں، دونوں وقت آن ملا کرتے ہیں دم بھر کے لئے۔ ایسے میں ایک مہربان نے بلمپت کے انترے میں بے جگہ بے داد سے راگ کی چال میں کھنڈت ڈال دی۔ خضر دوراں کے کم سواد تبصرے کی رفوگری پر ایک کالم صرف ہو گیا۔ پھر سے بندش کی چال پکڑنے کی سعی کر دیکھتے ہیں شاید کوئلیا کی کوک میں برہا کی لگن پلٹ آئے۔ اپریل 1936میںلارڈ لِن لتھگو برطانوی وائسرائے بن کر دہلی پہنچے تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1936کے تحت ہندوستان میں صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ہونا تھے۔ فروری 1937 میں انتخابات کا نتیجہ سامنے آیا تو کانگریس 11میں سے 7صوبوں میں کامیاب ہو چکی تھی۔ بنگال میں مطلوبہ اکثریت نہ ملنے کے باوجود کانگریس سب سے بڑی جماعت تھی۔ مسلم لیگ کسی صوبے میں حکومت نہیں بنا سکی۔ یہ انتخابی معرکہ برطانوی ہند کی تاریخ میں ہندوستان کی سیاسی قیادت کا پہلا پارلیمانی امتحان تھا۔ کانگریس اپنی اکثریت کے زعم میں یہ فراموش کر بیٹھی کہ برطانوی ہند کی پچیس فیصد آبادی عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے۔ ایک چوتھائی آبادی کو فیصلہ سازی سے منفک کر کے مستحکم پارلیمانی جمہوریت کام نہیں کر سکتی۔ دوسری طرف یورپ عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ستمبر 1939میں جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان میں کانگریسی قیادت نے اس شرط پر جنگ میں تعاون کی پیشکش کی کہ جنگ کے بعد ہندوستانیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ وائسرائے نے یہ پیشکش نامنظور کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر ہندوستان کو جنگ میں فریق قرار دے دیا۔ کانگریسی وزارتوں نے استعفے دے دیے اور مسلم لیگی قیادت نے اس پر یوم نجات منایا۔ یہ وہ نکتہ تھا جہاں سے ہندوستانی سیاست میں ہندو مسلم تضاد دستوری بندوبست پر مکالمے کا حصہ بن گیا۔ مسلم لیگ دس کروڑ مسلمانوں کی اقلیت کیلئے آئینی تحفظات چاہتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ اقلیتی حقوق کے تحفظ کی ضمانت چاہتی تھی۔ قائداعظم نے مسلم اکثریتی منطقوں اور ہندو اکثریتی علاقوں میں ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا۔ اس دوران ’ہندوستان چھوڑ دو ‘ تحریک چلی۔ بنگال میں قحط پڑا۔ مارچ 1942میں اسٹیفورڈ کرپس ہندوستان آئے۔ انہوں نے جناح اور گاندھی سے مذاکرات میں پیشکش کی کہ اگر ہندوستانی قیادت جنگ میں برطانیہ کی مدد کرے تو جنگ کے خاتمے پر ہندوستان کو ڈومینین اسٹیٹس مل سکے گا۔ گاندھی جی نے اس پیشکش کو ”A post-dated cheque on a crashing bank’قرار دیا تھا۔ تاریخ میں ماضی کا تجزیہ بہت آسان اور مستقبل کی پیش بینی قریب قریب ناممکن ہوتی ہے۔ مارچ 1942میں گاندھی جی
یہ فراموش کر رہے تھے کہ جون 1941میں سوویت یونین پر جرمن حملے اور دسمبر 1941میں پرل ہاربر پر جاپان کے حملے سے عالمی جنگ کا نقشہ بدل چکا تھا۔ اکتوبر 1942آتے آتے شمالی افریقہ میں رومیل شکست کھا چکا تھا اور سٹالن گراڈ کے محاذ پر جرمنی کی فیصلہ کن پسپائی شروع ہو چکی تھی۔ کانگریس کا یہ اندازہ حقائق کے عین برعکس تھا کہ عالمی جنگ میں برطانیہ کی شکست ناگزیر تھی۔ اس دوران قائد اعظم محمد علی جناح کو موقع مل گیا کہ مسلم لیگ کی کمزور سیاسی حیثیت کو کانگریس کے بالمقابل لا کھڑا کریں۔ مارچ 1946 میں کیبنٹ مشن کی آمد ہندوستان کی سیاسی قیادت کے لئے ایک باوقار آئینی سمجھوتے تک پہنچنے کا آخری موقع تھا۔ کیبنٹ مشن خود ہندوستان کی سیاسی قیادت نے تباہ کیا۔ نہرو نے 10جولائی 1946کے بیان سے کیبنٹ مشن کے بنیادی خدوخال ہی ملیامیٹ کر دیے۔ اس کے ردعمل میں 29جولائی کو مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کی منظوری واپس لے کر راست اقدام کی سیاست شروع کی جو دراصل خون خرابے کا راستہ تھا۔ 16اگست 1946کو کلکتہ میں فسادات ہوئے جہاں حسین شہید سہروردی وزیراعظم اورخواجہ ناظم الدین ان کے دست راست تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے فروری 1947 میں پنجاب کے گورنر ایوان جنکنز سے کہا تھا کہ ’انہیں بالکل معلوم نہیں کہ پاکستان کیا ہے اور غالباً مسلم لیگ کے کسی دوسرے رہنما کو بھی اس کا علم نہیں۔ کلکتہ سے فسادات کی آگ ہندو اقلیتی قصبے نواکھلی تک پہنچی۔ اس کے ردعمل میں بہار کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی۔ جنوری 1946میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ نے 73نشستیں حاصل کیں۔ تاہم کانگریس (51)، اکالی دل (20)، یونینسٹ پارٹی (21) نے 92 نشستوں کی مدد سے اتحادی حکومت قائم کر لی۔ یہ حکومت جمہوری اور پارلیمانی اصولوں کے مطابق بالکل جائز تھی لیکن مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی پنجاب میں اتحادی حکومت کو غیر نمائندہ قرار دیتے ہوئے خضر حیات کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ 2مارچ کو خضر حیات نے استعفیٰ دے دیا۔ مسلم لیگ کے پاس حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ نشستیں موجود نہیں تھیں چنانچہ پنجاب میں گورنر راج قائم کر دیا گیا اور 4مارچ کو راولپنڈی میں فسادات شروع ہو گئے۔ بنگال، پنجاب، سرحد، کشمیر اور کراچی کے فسادات کے بارے میں تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جوآج کے پاکستان میں شرمندہ اشاعت نہیں ہو سکتے۔ گزشتہ عشروں میں ہم نے پاکستان کی تاریخ کو عندالطلب پوشاک پہنا دی ہے۔ مناسب ہو گا کہ مطالبہ پاکستان کی متوازن تفہیم کے لیے 23مارچ 1940 کی قرارداد، جولائی 1947کے قانون آزادی ہند کے متن ،دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947کو قائداعظم کی تقریر، 14دسمبر 1947 کو کراچی کے خالق دینا ہال میں پہلی آل پاکستان مسلم لیگ کونسل کے اجلاس کی کارروائی، 8اپریل1950 کو نیو دہلی میں لیاقت نہرو سمجھوتے اور 1950میں 31علما کے 22نکات کو آمنے سامنے رکھ کے دیکھ لیا جائے کہ پاکستان کا خواب کیا تھا، اس کی قانونی اور آئینی جہتیں کیا تھیں اور ہم نے اپنی تاریخ میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے خواب کو کس طرح مسخ کیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ