نظریاتی مملکت، عالمِ جان کنی میں … تحریر : حفیظ اللہ نیازی


ریاست میں اسلامی نظریہ نے پنپنا تھا۔ 3دہائیوں بعد نظریہ کو جبری رخصت پر بھیجا کہ آئین بچانا ترجیح بنا۔ وائے ناکامی! آج آئین سے زیادہ ریاست بچانی ہے۔ آج ریاست میں ٹھہراو نہ پڑاو کی ہمت، نہ آگے بڑھنے کا حوصلہ وسکت ، جانِ ریاست گھائل ہو نے کو ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے چیف کا عہدہ کیا سنبھالا، سالوں سے خواب خرگوش کا مزہ لینے والی عدلیہ بیدار ہو گئی۔ فورا معلوم ہوا عدالتی نظام پامال ہو رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججوں نے مملکت کو میگنا کارٹا (Magna Carta) سے متعارف کرانے کی ٹھانی۔ سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگ لی کہ رول آف لاکا نفاذ اور اپنی آزادی درکار ہے۔ خط سے عیاں کہ کئی سالوں سے عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی ماتحت اور ایجنسیوں کی ہیرا پھیری، جوڑ توڑ کی زد میں تھی۔ خوش آئند کہ قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد بطل حریت بننے کی جرات ِ رندانہ سامنے آئی۔ عدالتِ اعلی و عظمی جس عمرانی بیانیہ کی کل یرغمال تھی، اگرچہ انہی خطوط پر استوار، بمطابق فیصلے سامنے آ رہے ہیں۔ عمران باجوہ بھیانک دور میں قاضی فائز اور شوکت صدیقی جب نشانہ بنے، بطل حریت اس تناظر میں اپنا نفع نقصان دیکھ رہے تھے۔ آج عدالتی کارروائی میں 8فروری کے الیکشن کو مزید متنازعہ بنانے کیلئے عدالتی نظام اپنے ریمارکس میں شہرت یافتہ، احتیاط لازم کہ 25جولائی 2018کا الیکشن پہاڑ اوجھل رہے۔ جھوٹ سچ سے صرف نظر مملکت دو متحارب سیاسی فریقوں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ ججز دامے درمے سخنے فریق بن چکے ہیں۔ قومی بد نصیبی کہ جو فیصلہ مرضی دیں کسی ایک فریق نے اس کو مسترد کرنا ہے۔

خاطر جمع ! قاضی فائز عیسی کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ انکی کمی بیشی کا اگلے جہاں میں کفارہ اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی پہلا جہاد بغیر کسی وجہ انکے خلاف ہی تو شروع کیا۔ سالوں عمرانی سوشل میڈیا نے بغیر وجہ قاضی عیسی کی ٹرولنگ اور انکے خلاف دشنام طرازی جاری رکھی۔ ازراہ تفنن کہ ایک ایسا چیف جسٹس گلزار بھی آیا جس نے قاضی عیسی کو حکومتی مقدمات سے علیحدہ رکھنے پر “تاریخی فیصلہ” صادر فرمایا۔ یقینا عمران خان کو اس احساس جرم نے گھائل کر رکھا ہوگا کہ جنرل عاصم منیر اور قاضی فائز کیخلاف بغیر وجہ بہتانوں، جھوٹ کا انبوہ لگایا، جبکہ وہ ابھی اپنے موجودہ عہدوں پر فائز نہیں تھے۔ قاضی صاحب ایک غیر معمولی، بے مثال شخصیت، زندگی جرت اور آئین و قانون کے تابع گزاری۔ آئین و قانون سے تجاوز کی بھی نوبت ہی نہ آئی۔ قاضی صاحب جیسے ہی چیف جسٹس بنے، اپنے پروگراموں میں میری رٹ، موجودہ عدلیہ میں قاضی عیسی ہی واحد امید جو الیکشن 2024 کروانے کی جرات رکھتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بارے گماں اغلب! دور دور تک الیکشن کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ دھڑکا لاحق! الیکشن روکنے کیلئے ایمرجنسی لگا ئیں گے اور قاضی صاحب کی چھٹی کروا دی جائیگی تاکہ الیکشن نہ ہو پائے۔ 8فروری الیکشن کا سہرا ڈنکے کی چوٹ پر قاضی عیسی کے سر باندھوں گا۔ ماضی قریب میں جسٹس بندیال نے 13مئی 2023کو پنجاب میں الیکشن کروانے کی ٹھانی تو نہ الیکشن ہوئے نہ ہی استعفی آیا۔8 فروری کا الیکشن ہی جو تحریک انصاف کو نئی طاقت دے گیا۔ عمران خان اگر اگلے جہاں کی معمولی فکر ہے تو جسٹس قاضی اور جنرل عاصم سے خلوص دل سے معافی مانگو تاکہ دونوں دل کی گہرائیوں سے آپکو معاف کر دیں وگرنہ اللہ کے سامنے پیشی پر مشکل ہو گی۔ عمران خان جب اقتدار سے علیحدہ ہوا تو اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا، وطن عزیز میں سیاسی بے یقینی کی کیفیت ہو گئی۔ اس لڑائی میں آج عدلیہ کا ایک حصہ عمران خان کی حمایت میں خم ٹھونک چکا ہے جبکہ دوسرا حصہ آئین اور قانون کی بالا دستی کیلئے ڈٹ چکا ہے، بائی ڈیفالٹ اسٹیبلشمنٹ فائدہ میں ہے۔

آج ہی چیف جسٹس قاضی نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور جسٹس منیب اختر کے بارے 11حقائق میڈیاپر سامنے لائے ہیں۔ ذاتی بدقسمتی کہ جسٹس قاضی اور جسٹس منصور دونوں کو غیر معمولی اور بے مثال جج سمجھتا ہوں۔ ان دونوں کا آمنے سامنے آنا، عدالتی سے زیادہ قومی سانحہ ہے۔ کیا ہماری عدلیہ شعوری یا لاشعوری طور پر سمجھنے سے قاصر ہے کہ سیاسی تناو، قطبیت (POLARIZATION) میں کسی فیصلے کو طاقتور قطعا خاطر میں نہیں لائیں گے، “چاہے کسی کی جان جائے چاہے کسی کی آن جائے”۔ جسٹس قاضی بینچ کے فیصلے ایک سیاسی فریق ماننے سے انکاری ہے تو جسٹس منصور شاہ گروپ کے فیصلوں کے قلم کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے دوسرا فریق انکو ناقابلِ عمل قرار دیتا ہے۔ عمران خان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ ،دونوں اطراف سے عدلیہ بھی حصہ بقدرجثہ ڈال چکی ہے۔ لڑائی جو مرضی رخ اختیار کرے، بھاری دل سے اعلان کرتا ہوں کہ سیاسی طاقت یا عدالتی طاقت جب بھی عسکری طاقت سے ٹکرائی، پاش پاش رہی۔ خدانخواستہ سیاسی طاقت یا عدلیہ کسی طور عسکری طاقت کو دھینگا مشتی میں پچھاڑ دے گی تو مان لیں ریاست اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔ خرماں نصیبی! عمران خان کو یہ وارے میں ہے۔

اوائل جوانی میں ہی قومی سیاست کا حصہ تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ساتھ زندگی کا بہترین دور تھا، بہترین تربیت ملی۔ نظریاتی شعور کیساتھ سیاسی اسرار و رموزتک رسائی ملی، آج تک مضبوطی سے تھامے ہوں۔ جمعیت نے آئیڈیلزم دیا تو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کیلئے دہائیوں کا سفر جان ہتھیلی پر رکھ کر جاری رکھا۔ میری بدقسمتی کہ ایک وقت ایسا کہ نظریاتی سیاست (یا نظریہ) کو پس پشت ڈالا اور آئین کی حکمرانی میں چار دہائیاں وقف رکھیں۔ عقیدہ بنایا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی ہو گی تو سیاسی استحکام آئے گا۔ سیاسی استحکام کی موجودگی میں نظریاتی سیاست کی سہولت خودبخود میسر رہے گی۔ وطن عزیز کا بد سے بدتر کا سفر! آج آئین سے پہلو تہی کرنے کو دل و دماغ اکسا رہا ہے کہ ریاست کو بچانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آئین کے نفاذ کیلئے ایک ریاست چاہیے اگر ریاست نہ رہی تو آئین کا کیا کرنا ہے۔

خلوص دل اور نیک نیتی سے سمجھتا ہوں کہ ریاست بچانا ہے تو بغیر الفاظ چبائے اسٹیبلشمنٹ کو انکی من مانی کا راستہ دینا ہو گا۔ کسی طور ٹکراو یا تصادم پاکستان کے اندرونی بیرونی دشمنوں کے وارے میں ہے، مملکت متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر روڑے نہ اٹکائے گئے تو اسٹیبلشمنٹ زیادہ سے زیادہ “رول آف دی گیم” کو ملحوظ خاطر رکھ کر فتح یاب ہونا پسند فرمائے گی۔ انکی فتح یابی، عمران خان کی شکست سے نتھی ہے۔ کیا پاکستان کی خاطر عمران خان بغیر فساد جھگڑا کے شکست اپنی مان لے گا اور ہمیشہ کیلئے نام پیدا کر جائے گا۔ حالیہ آئینی ترامیم، اسٹیبلشمنٹ کیطرف سے “رولز آف دی گیم” کے مطابق اپنی مقصد براری ہے۔ پلیز ان کو راستہ دیں اور ملک بچائیں۔ انشا اللہ آئین بھی بچ جائیگا اور اسلامی نظریاتی مملکت کی بھی گنجائش بھی موجود رہے گی۔ راستہ دیں وگرنہ زور زبردستی RIGHT OF WAYپچھترسال سے اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی تو ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ