اسرائیل کی لبنان میں کارروائی: مستقبل کی جنگ کی ایک جھلک … تحریر : افتخار گیلانی


بھارتی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل سندر راجن پدمانابھن، جن کا گزشتہ ماہ اگست میں انتقال ہوا ہے، نے 2004میں دہلی میں اپنے ایک ناول کا اجرا کیا۔ یہ ناولWritiing on the Wallپاکستان کے ساتھ ایک خیالی جنگ ، جس میں امریکہ پاکستان کی مدد کو آتا ہے، کے ارد گرد گھومتا ہے۔ فوجیوں اور ٹینکوں کے بجائے سائنسدانوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور پوشیدہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے مواصلاتی نظام میں خلل ڈال کر بھارت یہ جنگ جیت جاتا ہے۔ جب اجرا کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس طرح کے ہتھیار وجود میں آچکے ہیں ، تو بار بار انہوں نے وضاحت کی کہ یہ ایک مصنف کا تخیل ہے، اس کو فوج کی تیاریوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار اسرائیلی سائنسدانوں کا ایک وفد دہلی میں تھا، اور ان کے سفارت خانہ نے چند صحافیوں کے ساتھ ان کی ایک نشست رکھی تھی۔ بات چیت کے دوران وفد میں شامل ان میں ایک سائنسدان نے کہا کہ جب بھی مارکیٹ میں کوئی سائنس فکشن آتا ہے، تو ان کا محکمہ اس کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا مصنف کے تخیل کو حقیقت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنسدانوں کو سائنس فکشن لکھنے والے مصنفین رچرڈ مورگن، السٹر ری نالڈس، (جن کے ناولز کا مرکزی موضوع تھیورٹکل فزکس ہوتی ہے) اور ان گنت دیگر مصنفین کی نگارشات کو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے، بلکہ یہ بھی رپورٹ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اسکو عملی روپ دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سے ان اسرائیلی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وہ جاسوسی تھرلرز کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ جنرل پدمانابھن کا تخیل اور اسرائیلی سائنسدانوں کے یہ دعوے اس وقت واقعی حقیقت میں تبدیل ہوتے گئے، جب ابھی حال ہی میں لبنا ن کے طول و عرض سے خبریں آنا شروع ہوئیں کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات پیجر اور پھر بعد میں واکی ٹاکی میں پے در پے دھماکے ہو رہے ہیں، جن سے پچاس کے قریب افراد ہلاک اور تقریبا تین ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔موبائل نیٹ ورک کو درکنار کرتے ہوئے حزب اللہ نے پیجر نیٹ ورک کو محفوظ اور قابل اعتماد مواصلاتی ذریعہ گر دانا تھا، کیونکہ ان کو ہیک کرنے کا کم خطرہ رہتا ہے۔ مگر یہ خود ہی بم بن گئے ۔ بتا یا جاتا ہے کہ حال ہی میں، حزب اللہ کو پیجرز کی ایک نئی کھیپ موصول ہوئی تھی ۔خبروں کے مطابق اسرائیلی ایجنٹو ں نے سمندری جہاز کے ذریعے جانے والی پیجرز کی کھیپ تک رسائی حاصل کی تھی اور بیٹری کے ساتھ ہی اس میں چند گرام بارود رکھ کر ان کو دوبارہ بالکل اسی طرح پیک کرکے ان کو اپنے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ مگر ایک روز قبل حزب اللہ سے وابستہ کسی جنگجو کو دو پیجرز پر شک ہو گیا تھا، کہ ان کی پیکنگ کھولی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ تنظیم ان پیجرز پر مزید تحقیق کرکے ان کو کوڑے دان میں پھینک دیتی، کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہونے آپریشن کی منظوری دے دی۔ ان رپورٹوں کے مطابق اصل منصوبہ کی رو سے ان پیجرز کو اس وقت پھٹنا تھا ، جب اسرائیل غازہ سے فراغت کے بعد باضابط لبنان پر حملہ کردیتا۔ چونکہ یہ پیجر ہر جنگجو کے پاس موجود ہوتے، تو ایک ساتھ ا ن کے پھٹنے سے ایک دم پانسہ پلٹ جاتا۔ فی الحال حزب اللہ کا محفوظ مواصلاتی نظام، جو حملوں کو مربوط کرنے اور جنگجوں کو متحرک کرنے کے لیے ضروری تھا، اس کی کمزوری بن گیا ہے جس کا اسرائیل بھر پور فائدہ اٹھارہا ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو کبھی نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اسے غیر محفوظ بنایا گیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس انتہائی محفوظ فوج کو ڈیجیٹل دور میں انتہائی محفوظ خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ لبنان میں دھماکے ایک واضح یاد دہانی ہیں کہ جنگوں کی نوعیت بدل رہی ہے۔ اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر کارناموں سے لڑی جا سکتی ہیں۔ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ 21ویں صدی میں جنگ کے حوالے سے ایک اہم لمحہ فکریہ ہے۔سائبر حملے اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں، جس میں کوئی نشان، کوئی ملبہ، اورگولہ بارود نہیں چھوڑا جاتا ہے۔یہ حملے مواصلاتی نیٹ ورکس، پاور گرڈز، مالیاتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسرائیل کے نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ریفیل فرانکو کے مطابق حزب اللہ کو اس شاک سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے جنگجو ہر پیجر اور موبائل فون کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔ اسرائیل نے فون اور دیگر آلات کو ہیک کرنے کی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی آپ کے گھر پر روبوٹک جھاڑو کو بھی ہیک کرکے اس کو آپ کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے حز ب اللہ کی سپلائی چین کا پتہ لگا دیا تھا۔ انہوں نے پتہ لگا یا تھا کہ چونکہ مغرب میں حز ب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کے زمرے میں رکھا گیا ہے، اس لئے یہ پیجرز کسی شیل کمپنی سے خریدے گئے ہونگے۔ انہوں نے ہنگری میں بی اے سی کنسلٹنگ کا پتہ لگایا تھا جس نے ان پیجر ز کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ ایران جلد ہی حزب اللہ کو جدید مواصلاتی آلات بھیجے گا،مگر اس نئے نظام کو فعال ہونے میں مہینوں نہیں تو ہفتوں لگیں گے۔اس لئے ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے پاس حزب اللہ کو گھٹنے ٹیکوانے کیلئے بس یہی وقت بچا ہے۔ اس لئے پچھلے چند دنوں سے اسرائیل لبنان پرشدید بمباری کر رہا ہے۔ اسرائیل کی داخلی خفیہ ایجنسی شن بیٹ نے 1996 میں غزہ میں حماس کے ایک رکن یحیی عیاش کو مارنے کے لیے خفیہ طور پر دھماکہ خیز مواد سے لیس موبائل فون اس کے پاس پہنچایا۔ جب اسرائیلی ایجنٹوں نے تصدیق کی کہ فون ان تک پہنچ گیا ہے اور اس پر ان کی ہی آواز ہے، تو اس کو ریموٹ سے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ اسی طرح 1997 میں حماس کے پولیٹ بیورو کے سربراہ خالد مشعل کو قتل کرنے کے لئے موساد کے دو خفیہ افسروں نے مشال کی گردن پر زہر چھڑکا تھا۔ مگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یہ دونوں ایجنٹ پکڑے گئے۔ حماس کے لیے ہتھیارفراہم کرنے والے محمود المبحوح 2010 میں دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔ اماراتی حکام نے ابتدائی طور پر اسے قدرتی وجوہات کی بنا پر موت قرار دیا تھا ، مگر بعد کی تحقیقات میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا پردہ فاش ہوا۔2010 اور 2020 کے درمیان، تقریبا نصف درجن ایرانی جوہری سائنسدان بندوقوں کے حملوں یا دھماکوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔ایران کے چیف جوہری سائنسدان محسن فخر زادہ کو 2020 میں تہران کے مضافات میں ایک قافلے میں گاڑی چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کچھ ایرانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سیٹلائٹ سے کنٹرول کرنے والی سنائپر رائفل کا استعمال کیا۔

بشکریہ روزنامہ 92