حکمرانوں کے آبائی شہر لندن سے … تحریر : مظہر عباس


زندگی میں پہلی بار لندن آنے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ اپنے کراچی میں کتنی آزادی ہے۔ ہر قانون توڑنے کی یہاں تو پابندیاں ہی پابندیاں ہیں ۔کبھی اپنے پاکستانی بھائیوں کو اس طرح کی پابندیوں میں جکڑا نہیں دیکھا۔ ایک ہمارا پیارا ملک ہے جہاں چاہو گاڑی کھڑی کردو، جدھر چاہو کچرا پھینک دو۔ حسرت ہی رہی ایک دو بار کے علاوہ گاڑی کے ہارن سننے کی۔ دوستوں نے بتایا کہ یہاں تو ذراسی خلاف ورزی پر گھر پر محبت نامہ ٹکٹ کی صورت میں مل جاتا ہے کبھی سو پاؤنڈ کبھی دو سو۔ سچ تو یہ ہے کہ قومیں ڈسپلن سے پہچانی جاتی ہیں بس حیرت ہوئی تو اس بات کی کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کا یہ ایک طرح سے آبائی شہر ہے وہ اکثر یہیں پائے جاتے ہیں ماسوائے دورئہ حکمرانی کے تو بس تھوڑے سے قوانین اور طرز حکمرانی وہاں جیسے اپنے ملک میں بھی نافذ کرکے دیکھ لیں یقین جانیں بڑا مزا آئے گا عین ممکن ہے آپ لوگ پاکستان میں ہی رہنا شروع کر دیں۔

ایسا نہیں کہ لندن یا برطانیہ کے دیگر شہروں میں وارداتیں نہیں ہوتیں، اسٹریٹ کرائمز نہیں ہوتے، موبائل فون کی حفاظت نہیں کرنی پڑتی۔ یہاں بھی گھر والے خبردار کرتے ہیں کہ دروازہ کھلا نہ رکھنا، گھنٹی بجے تو دروازہ احتیاط سے کھولنا۔ میرے جامعہ کراچی کے دوست اکرم قائم خانی کے، جس کے گھر میرا قیام تھا، دو ہفتہ پہلے موبائل چوری کی خبر ایسے ملی جیسے ہمارے یہاں تو کبھی ایسی واردات ہوئی نہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ ایک اور صحافی دوست محمد حنیف کے ساتھ بھی ایسی ہی وارداتیں دو، تین بار ہوچکی ہیں۔ صفائی کو نصف ایمان سمجھنے والوں کے علاقوں میں کچرا سڑکوں پر پڑا دیکھ کر کچھ اپنا اپنا سا لگا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں کی زندگی کا خوبصورت ترین رخ وہ نظم و ضبط ہے جسے ہر رنگ و نسل کے لوگ انتہائی ایمانداری سے فالو کرتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں ‘VVIP’ کلچر نہیں ہے۔ جو قانون عام آدمی کیلئے ہے وہی حکمرانوں کیلئے۔ یہاں کا خوبصورت ترین پہلو ان کا مضبوط بلدیاتی نظام ہے بقول کچھ شہریوں کے ہمارے یہاں سٹی کونسل میں کون منتخب ہوتا ہے، وزیراعظم کون ہوتا ہے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

یہاں ریاست اپنے شہریوں کا چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، بس اتنا کافی ہے کہ آپ برطانوی شہری ہیں، ایسے خیال رکھتی ہے جیسے ماں اپنے بچوں کا۔ تعلیم اور صحت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سر میں برسوں سے ٹیکسی چلا رہا ہوں مگر مطمئن ہوں کیونکہ میرے بچوں کی تعلیم اور صحت کا بوجھ ریاست اٹھاتی ہے۔ ایک جاننے والے کے اسپیشل چائلڈ پر بقول اس دوست کے اب تک تقریبا پانچ لاکھ پاؤنڈ خرچ ہوچکے ہیں برسہا برس سے حکومت ذمہ داری لئے ہوئے ہے۔ ٹیکسی چلانے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور سب سے بڑا اور اہم ترین مشاہدہ تو یہ ہوا کہ یہ قوم سب سے زیادہ احترام پیدل چلنے والوں، سائیکل چلانے والوں اور جانوروں کا کرتی ہے۔ یہاں بچوں کو بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ سڑک کیسے کراس کی جاتی ہے، کچرا کہاں پھینکا جاتا ہے۔میرا مشاہدہ اپنی جگہ کہ میں نے جو دیکھا، سمجھا لکھ دیا، حیران ہوں تو بس اس بات پر کہ ہمارے سیاسی و غیرسیاسی بیشتر لوگوں کے گھر یہاں ہیں، ان کے بچے بھی یہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور یہ کہانیاں بھی اتنی غلط نہیں کہ یہ حق حلال کی کمائی سے ممکن نہیں اس کا پچاس فیصد بھی وہ اپنی قوم پر خرچ کردیتے تو آج شائد یہ کالم لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ایسی کہانیاں بھی ہیں کہ جھنگ کے ایک نوجوان نے اپنی محنت سے زندگی کا سفر ایک پیلے اسکول سے کیا اور اب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ اس کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ مجھے اتفاق سے اس سے بات کرنے کا موقع مل گیا ورنہ میں تو دیکھنے گیا تھا کہ چانسلر کے الیکشن میں کیا ہونے جارہا ہے آخر ہمارے سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والے سابق وزیر اعظم اور قیدی 804عمران خان بھی ایک امیدوار ہیں اور آئندہ ہفتہ غالبا یہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ لڑنے کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔ ایک اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کارنر دیکھنے کا بھی موقع ملا جہاں ان کی تصویر بھی آویزاں تھی۔ اب سوچیں کہ ایک ایسی درس گاہ جو دنیا کے حکمران پیدا کرتی ہے وہاں ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان کیسے پہنچا۔ اس کا جہاں اس نے شکر اللہ کا ادا کیا وہیں اس کے بعد کریڈٹ ماں باپ کے ساتھ ساتھ جناب علی ترین جو جہانگیر ترین کے بیٹے ہیں ان کو دیا جن کی فاؤنڈیشن کی اسکالر شپ کی وجہ سے وہ یہاں تک پہنچا۔

کہانی تو ایک کوئٹہ کے نوجوان عارف کی بھی خاصی دردناک ہے جو پچھلے 20سال سے لندن میں ٹیکسی چلاتا ہے اور مطمئن ہے گو کہ بلوچستان کی خوشبو آج بھی یاد آتی ہے۔ کیا کروں مظہر بھائی، میرے خاندان کے دو درجن سے زائد لوگ ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں مارے گئے۔ یہاں محنت کا صلہ ملتا ہے وہاں گولی، یہاں میرے بیوی، بچوں کا خیال ریاست ماں جیسا رکھتی ہے وہاں گودیں اجڑ گئیں۔ میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں پر حقیقت تو یہی ہے۔

دو ایسے نوجوان بھی ملے جن کے والد آغا حسن عابدی صاحب کے بی سی سی آئی بینک میں کام کرتے تھے۔ مطمئن اسلئے نظر آئے کہ ریاست خیال رکھتی ہے تعلیم اور صحت کا۔ ناجانے ایسی کتنی اسٹوریز ہیں۔ ان علاقوں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جہاں حال ہی میں ایک فیک نیوز نے فسادات کروا دیئے تھے۔ انتہا پسند سوچ رکھنے والے تنگ نظر، نسل پرست لوگ بھی ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ میں اور میرا دوست خود اس کا شکار ہوتے ہوتے بچے ورنہ آج یہ خبر کوئی اور دے رہا ہوتا۔ مگر برطانوی پارلیمنٹ سے لے کر لندن کے میئر تک جو جمہوری نظام یہاں دیکھنے کو ملا اس کی تو ‘ABCD’ سے بھی ہماری اشرافیہ واقف نہیں یا پھر وہ اپنی قوم کو اپنے برابر دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ بس دونوں ملکوں کی جمہوریت میں اتنا ہی فرق ہے یہاں یعنی برطانیہ میں قانون کی حکمرانی ہے اور ہمارے پیارے پاکستان میں حکمرانوں کا قانون۔ ہمارے یہاں تو آئینی ترامیم پر ایسے لڑا جارہا ہے جیسا کہ ملک آئین کے مطابق چلتا ہو۔ ایک یہ ملک ہے جو بغیر آئین ہی آئینی طور طریقہ سے چل رہا ہے۔ روایات اتنی مضبوط ہیں کہ بادشاہ کا بھی احترام ہے اور پارلیمنٹ کا بھی مگر اصل احترام یہاں جمہور کا ہے۔ مجال ہے یہاں کوئی ڈاکٹر حنا کسی کھلے گٹر میں گرجائے اور ایوانوں میں مجرمانہ خاموشی رہے۔

اس سے بڑی مثال ایک جمہوری معاشرے کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس مغرب زدہ معاشرہ کو ہم تنقید کا آئے دن نشانہ بناتے ہیں وہ رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر ایک مربوط نظام کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے بس ہماری اشرافیہ سے اتنی سی درخواست ہے کہ اپنے ملک کا خیال بھی اپنے آبائی شہر لندن کی طرح رکھیں۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ