جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس آف پاکستان کاعہدہ سنبھالے ایک سال مکمل ہوگیا

اسلام آباد(صباح نیوز)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس آف پاکستان کاعہدہ سنبھالے ایک سال مکمل ہوگیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ برس16ستمبرکوسابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد 17ستمبر کوملک کے29ویں چیف جسٹس کے طور پر اپنے عہدے کاحلف اٹھایا تھا۔سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے قاضی فائز عیسیٰ سے چیف جسٹس کے عہدے کاحلف لیا تھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ایک سالہ دور میں متعدد اہم کیسز کے فیصلے ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ہی کیسز براہ راست دکھانے کاسلسلہ شروع ہوا اوراس حوالہ سے سپریم کورٹ کایوٹیوب چینل بنایا گیا۔

موجودہ قانون کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی 65سال کی عمر کو پہنچنے پر 25اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔اگر کوئی آئینی ترمیم نہ ہوئی تو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ 26اکتوبر کو قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کاحلف اٹھائیں گے اور 3سال سے زائد عرصہ عہدے پر کام کریں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کاعہدہ سنبھالنے کے بعد تقریباً4سال کے عرصہ کے بعد تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ اجلاس بلایا۔ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے تمام ججز کی خالی آسامیاں پُر کیں اور دو ایڈہاک ججز بھی لگائے۔ کیسز جلد نمٹانے کی تمام ترکوششوں کے باوجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دورمیںسپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد 58ہزارسے بڑھ کر60ہزار سے اوپر جاچکی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس مدت ملازمت کا دورانیہ 13ماہ اور1ہفتہ بنتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطورچیف جسٹس پہلے ہی روز 18ستمبر کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسییجر ایکٹ 2023 کیس کی سماعت کے 15رکنی فل کورٹ تشکیل دی جس نے متعدد سماعتوںکے بعد 5کے مقابلہ میں 10کی اکثریت سے قانون کو برقراررکھا جس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور2سینئر ترین ججز پر مشتمل 3رکنی کمیٹی کیسز کی سماعت کے لئے بینچز تشکیل دیتی ہے۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بینچ نے8جنوری2024کو 1کے مقابلہ میں 6کی اکثریت سے سابق وزیر اعظم میاںمحمدنوازشریف اورسردارجہانگیرخان ترین کی آئین کے آرٹیکل62-1(f)کے تحت تاحیات نااہلی کو کالعدم قراردیا تھا جس کے بعد دونوں دوبارہ الیکشن لڑنے کے لئے اہل ہو گئے۔

جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے چند روز قبل نیب ترامیم کیس کافیصلہ جاری کرتے ہوئے متفقہ طور پر 2022میں ہونے والی ترامیم کو سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 1کے مقابلہ میں 2کی اکثریت سے کالعدم قراردینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ترامیم کوبحال کردیا تھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل3رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف سے بلے کانشان واپس لینے کاالیکشن کمیشن کافیصلہ بحال کرتے ہوئے پشاورہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قراردے دیاتھا۔جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے عام انتخابات کے حوالہ سے تاریخ مقررکرنے کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا پابند کیا جس کے بعد عام انتخابات کے لئے 8فروری کی تاریخ مقررہوئی۔چیف جسٹس قاض فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستیں دینے کے حوالہ سے دائر درخواستوںپرسماعت کی۔ بینچ نے 12جولائی 2024کو 5کے مقابلہ میں 8کی اکثریت سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کودینے کاحکم دیا۔

اکثریتی فیصلہ سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کے ہمراہ 8ججز نے دیا تھا ۔فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آ ف پاکستان اورمتاثرہ سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیلز پارٹی کی جانب سے نظرثانی درخواستیں دائر کی گئیں جوکہ ججز کی موسم گرما کی دوماہ کی تعطیلات کے باعث سماعت کے لئے مقررنہ ہوسکیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی 2ماہ سے زائد کاعرصہ گزرنے کے باوجود مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ نہیں کی گئیں۔جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ کی جانب سے 14مئی کووضاحتی حکمنامہ جاری کیا گیا جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر درخواست کو عدالتی حکم میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف قراردیتے ہوئے فوری طور پر حکم پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا ،تاہم اس کے باوجود ابھی تک حکم پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔جبکہ وضاحتی نوٹ کے حوالہ سے 16ستمبر کو ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھا گیا وضاحتی نوٹ سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ 14ستمبر کو رات8بجے تک رجسٹرار آفس کونہ فیصلے کی کاپی ملی ، نہ اس حوالہ س کاز لسٹ جاری کی گئی اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے چیمبر میں سن کر فیصلہ جاری کیاگیا۔

دوسری جانب سے جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8ججز کی جانب سے تفصیلی فیصلہ بھی جاری نہیں کیاسکا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی کی سربراہی میں سپریم جوڈیشنل کونسل نے مس کنڈکٹ کی شکایات پر کاروائی کرتے ہوئے کھلی عدالت میں سابق جج سپریم کورٹ سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کاروائی کی اس دوان سید مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے استعفیٰ بھی دیا گیا تاہم سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کی اور یہ بھی قراردیا کہ سید مظاہر علی اکبر نقوی اپنے نام کے ساتھ جسٹس کالفظ استعمال نہیں کرسکتے۔ دوسری جانب سینئر ترین جج جسٹس اعجاز الاحسن نے ذاتی وجوہات کاحوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفیٰ کے بعد جسٹس سید منصورعلی شاہ سینئر ترین جج بن گئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے سابق سینئر ترین جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کو مس کنڈکٹ پرعہدے سے ہٹانے کے حکم کو کالعدم قراردیتے ہوئے قراردیا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کوریٹائرڈ جج تصورکیا جائے اورانہیں اس حوالہ سے تمام مراعات بھی دی جائیں۔ جبکہ متعدد ایسے معاملات ہیں جن کا نوٹس چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیا گیا اورمتعدد سماعتیں کرنے کے باوجود ابھی تک ان کیسز کے فیصلے نہیں ہوسکے۔چکوال کی زمین کے تنازعہ کے معاملہ کی سماعت کے دوران24اکتوبر2023کو پنجاب کے وکلاء کی جانب سے عرضی نویسوں سے عرضی دعویٰ لکھوانے کے معاملہ کا نوٹس لیا تھا اور پنجاب بار کونسل اور پاکستان بار کونسل کو 6ہفتے میں تحریری طور تجاویز دینے کی ہدایت کی تھی تاہم یہ کیس آج تک سماعت کے لئے دوبارہ مقرر نہ ہوسکا۔گلگت بلستان چیف کورٹ اور ایپلٹ کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے کیس کی سماعت کی اور گلگت بار کونسل کو نوٹس جاری کیا تاہم وہ کیس دوبارہ سماعت کے لئے مقرر نہ ہوسکا۔معاملہ 5رکنی لارجر بینچ کی تشکیل کے 3رکنی ججزکمیٹی کو بھجوایا گیا تھا تاہم آج تک نہ بینچ بن سکا اور نہ کیس کی سماعت ہو سکی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے14فروری 2024کو گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججزکی تعیناتی کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت کی تھی۔ درخواستیں سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان اوردیگر کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔ درخواستوں میں وفاق پاکستان کو سیکرٹری امور کشمیر وجی بی  اسلام آباد، سیکرٹری وزارت قانون وانصاف اوردیگر کے توسط سے فریق بنایاگیاتھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خیبرپختونخوا کے ضلع مردان کے ڈکیٹی کے مقدمہ میں ضمانت کیس می سابق ڈی آئی جی پولیس مردان کی جانب سے کلاشنکوف کاپرمٹ جاری کرنے کے معاملے کا نوٹس لیا اور کلاشنکوف اوردیگر غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ کی تعداد کے بارے میں تمام صوبوں اور وزاررت داخلہ سے رپورٹ طلب کی، سابق ڈی آئی جی مردان کو طلب کیا تاہم وہ پیش نہ ہوئے، جبکہ سیکرٹری داخلہ کواسی کیس میں طلب کیا تھا تاہم دوبارہ یہ کیس بھی سماعت کے لئے مقرر نہ ہوسکااورنہ ہی اس کا فیصلہ آسکا۔

چیف جسٹس نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ رکھے گئے نارواسلوک کے حوالہ سے 2021میں اپنے ہی لئے گئے ازخود نوٹس پر متعدد سماعتیں کیں تاہم ابھی تک کیس کاکوئی حتمی فیصلہ نہ کرسکے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنمااورسابق ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے الیکشن کو الیکشن ٹریبونل کی جانب سے کالعدم قراردینے اور جرمانہ عائد کرنے کے فیصلے خلاف دائر درخواست پر متعدد سماعتوںکے باوجود ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کرسکے۔ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس اپنے1سالہ دور میںسابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اورجسٹس جمال خان مندوخیل کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63کی تشریح کے حوالہ سے صدارتی ریفرنس کے فیصلہ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کے لئے بینچ تشکیل نہ دلوسکے۔ 17مئی2022کے فیصلہ کے خلاف 23جون2022کونظرثانی درخواست دائر کی گئی تھی۔

صدارتی ریفرنس پر 5رکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور2کے مقابلہ میں 3کی اکثریت سے فیصلہ آیا تھا، اکثریتی فیصلہ کرنے والے ججز میں سے جسٹس منیب اختر موجود ہیں جبکہ اقلیتی فیصلہ کرنے والوں میں سے جسٹس جمال خان مندوخیل موجود ہیں جبکہ چیف جسٹس اورایک جج ریٹائرڈہو چکے ہیں جبکہ ایک جج استعفیٰ دے چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے تین رکنی ججز کمیٹی کے 21جولائی کوہونے والے اجلاس میں مطالبہ کیا تھا کہ دونوں متذکرہ بالا ججز موجود ہیں ، یہ درخواست آئندہ 10روز کے اندر سماعت کے لئے ایسے بینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کی جائے جس میں جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی اور جسٹس امین الدین خان شامل ہوں۔تاہم ابھی تک اس درخواست پر بھی سماعت نہ ہوسکی ہے۔جبکہ تاحال فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمدکے حوالہ سے کیس چیف جسٹس کے بینچ میں زیر سماعت ہے اوراس کاحتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ۔ جبکہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے بھی کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور تاحال کوئی فیصلہ نہ ہوسکا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے افراد کے گھروںکے جلانے کا کیس بھی سنا تاہم ابھی تک کیس کافیصلہ نہ ہوسکاہے۔ چیف جسٹس نے متروکہ وقف املاک بورڈ کو ملک بھر میں موجود سکھ کمیوٹی کے گوردواروں اور زمینوں کا ریکارڈ ویب سائٹ پر لگانے اورعدالت کوفراہم کرنے کے احکامات دیئے تھے تاہم ابھی اس کیس کی بھی دوبارہ سماعت نہ ہوسکی ہے۔