بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کارروائی روک دی

نئی دہلی(صباح نیوز) بھارتی سپریم کورٹ نے بلڈوزر  سے  لوگوں کے مکانات اور املاک گرانے  سے روک دیا ہے  ۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ حکومت عدالت کی اجازت کے بغیر ان لوگوں کے مکانات اور املاک گرانے سے باز رہے  جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یاد رہے  بھارت میں انتہا پسند بی جے پی حکومت  لاکھوں مسلمانوں کے گھر  غیر قانونی تعمیرات قرار دے کر  بلڈوزر کے زریعے گرا چکی ہے   اخبار دی ہندو کے مطابق یہ حکم منگل، 17 ستمبر کو جسٹس بی آر گوائی کی سربراہی میں جسٹس کے وی وشوناتھن پر مشتمل  بینچ نے جاری کیا۔عدالت نے جمعیت علمائے ہند کی جانب سے غیر قانونی انہدام کے خلاف حکم اور اس ضمن میں رہنما اصولوں کے لیے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی۔

جسٹس کے وی وشوناتھن نے ریمارکس میں کہا کہ بلڈوزروں کو بڑھا چڑھا کر اور دکھاوے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جسٹس گوائی کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ املاک کو گرانے کی شرائط واضح ہونے تک اس عمل کو روکا جائے۔ مقدمے کی اگلی سماعت یکم اکتوبر کو ہو گی۔سپریم کورٹ آف انڈیا نے غیر قانونی انہدام کے بارے میں ملک بھر میں رہنما اصول وضع کرنے کے لئے متعلقہ فریقوں سے تجاویز طلب کیں۔یہ حکم انہدام کے متعدد واقعات کے تناظر میں آیا  جہاں جرائم میں ملوث بعض افراد کے مکانات اور املاک کو مناسب طریقہ کار پر عمل کیے بغیر مسمار کردیا گیا۔گذشتہ چند سال میں اس طرح کے انہدام عام ہو گئے ہیں جن میں کمزور گروپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ لوگ اکثر اس طرح کی کارروائی کے خلاف قانونی اقدام کے لیے ضروری وسائل سے محروم ہیں۔

اس مخصوص لیکن من مانے ریاستی اقدام نے رہائش کے حق کو بے معنی بنا دیا کیونکہ مقامی حکام بے دخلی کی کارروائی دیدہ دلیری سے انجام دیتے  ہیں۔ اکثر عمارتوں کو رات کے وقت گرایا جاتا ہے۔ متاثرہ لوگوں کو رہائش کے لیے متبادل جگہ دی جاتی  ہے اور نہ ہی بحالی میں کوئی مدد کی جاتی ہے۔ایسے اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم مساوات، سماجی تصادم اور تقسیم سے اس بات کا خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ کچھ برادریاں مزید محرومیوں کو شکار ہوں گی۔ املاک کی مسماری آئین کی روح اور فوجداری قوانین میں موجود قانونی طریقہ کار کے منافی ہے۔فساد میں ملوث افراد کو اجتماعی طور پر سزا کے طور پر بڑے پیمانے پر انہدام کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔ دہلی کے جہانگیر پوری میں بلڈوزر کا جو استعمال شروع ہوا وہ اب ملک کے مختلف حصوں میں پھیل چکا ہے۔

ہریانہ کے علاقے نوہ میں 2023 میں دو مذہبی گروپوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے ہونے والا تشدد مقامی انتظامیہ کی جانب سے متعدد گھروں کو منہدم کرنے کے ساتھ ختم ہوا۔انسانی حقوق کے گروپ اس حکومتی اقدام کو اجتماعی سزا کی ایک غیر قانونی مشق قرار دے کر اس کی مذمت کر چکے ہیں۔اکثر اوقات اس طرح کی کارروائیوں میں اقلیتی مسلم کمیونٹی کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ جن لوگوں کی املاک گرائی گئیں، انہیں اس مقصد کے لیے چنا گیا تھا اور یہ بھارت کی اقلتی مسلم کمیونٹی کے خلاف بدنیتی پر مبنی کریک ڈان کا حصہ تھا۔