حکومت نے مونال گروپ آف کمپنیز کے ساتھ لیزمعاہدہ غیر قانونی قراردے دیا۔سپریم کورٹ کو آگاہی

اسلام آباد(صباح نیوز)حکومت نے مونال گروپ آف کمپنیز کے مالک لقمان علی افضل کے ساتھ 30ستمبر2019کوکیا گیا لیز کامعاہدہ غیر قانونی قراردے دیا۔ وزارت دفاع نے قراردیا ہے کہ غیرمتعلقہ حکام کو لیزمعاہدہ کرنے کاکوئی اختیار نہیں تھا اور یہ معاہدہ غیر قانونی تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ گزشتہ جمعہ کو بلال حق اور رینا سعید خان کی جانب سے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل اور سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی اعزازاے ڈار کے خلاف سپریم کورٹ کے 11جون2024کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کاروائی کرنے کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

حکومت کی جانب سے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن رینا سعید خان کو عہدے سے ہٹایا دیا گیا تھا جبکہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو وزارت ماحولیاتی تبدیلی سے لے کر وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کانوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5صفحات پر مشتمل سماعت کاتحریری حکمنامہ جاری کردیا۔ حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ مونال گروپ آف کمپنیز کے مالک لقمان علی افضل نے پہلے ایک غیر متعلقہ محکمے مائونٹ ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ ، کوارٹرماسٹر جنرل برانچ، جنرل ہیڈکوارٹرزکے ساتھ 30ستمبر2019کولیز معاہدہ کیا تھا جس کی سہولت کاری متعلقہ ڈائریکٹوریٹ کے حاضر سروس ڈائریکٹر جنرل نے کی تھی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے کے پیراگراف نمبر 10میں لکھا ہے کہ بعد ازاں وزارت دفاع کی جانب سے ایک درخواست (سی ایم اے نمبر7541آف2024)دائرکی گئی جس میں کہا گیا کہ میجر جنرل محمد سمریز سالک کے پاس لیز معاہدہ کرنے کاکوئی اختیار نہیں تھا لہذایہ معاہدہ غیر قانونی تھا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاررینا سعید خان کے وکیل محمد عمر اعجاز گیلانی کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کی مئوکلہ نے بطور چیئرپرسن ائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ سپریم کورٹ کے سامنے آئینی درخواست دائر کی تھی جس پر انہیں سزادی گئی اور 19جولائی کے نوٹیفیکیشن کے زریعہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی اورانوائرمنٹل کوآرڈینیشن نے انہیں عہدے سے ہٹادیا اوراس حوالہ سے کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ متعلقہ نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل سیکرٹری1کے پاس چیئرپرسن کااضافی چارج ہو گا اوران کے پاس یہ چارج تین ماہ یا مستقل چیئرپرسن کی تعیناتی تک رہے گا۔ حکنامہ میں درخواست گزاروں کی جانب سے رینا سعید خان کو عہدے سے ہٹانے کے حوالہ سے فراہم کیا گیا نوٹیفکیشن بھی نقل کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جاری نوٹیفکیشن بدنیتی پرمبنی ہے اوریہ محفوظ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی بیحرمتی اورتباہی کی سہولت کاری کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ نیشنل پارک کو متعلقہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور انوائرمنٹل کوآرڈینیشن سے لے کروزارت داخلہ کومنتقل کردیا گیا جس کا نیشنل پارکس کے تحفظ کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ ایک اور مبینہ بدنیتی کا پہلو یہ ہے کہ مونال گروپ آف کمپنیز کے مالک لقمان علی افضل ، سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل کے سگے بھائی ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے استدعا کہ توہین کی عدالت کی درخواستوں پر کوئی بھی کاروائی کرنے سے قبل انہیں کچھ وقت دیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی کروائی کہ 19جولائی 2019کے نوٹیفکیشن ، 2اگست2024کے حکم اور 6اگست2024کوجاری ہونے والے میمورینڈم پر عمل نہیں کیا جائے گااور نیشنل پارک آئندہ سماعت تک وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے پاس ہی رہے گا۔ لہذا توہین عدالت کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر کوئی بھی کاروائی آئندہ سماعت تک ملتوی کی جاتی ہے اورآئندہ سماعت پر وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کروائے گئے تحریری بیان پر غور کیا جائے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے تحریری حکم میں کہا ہے کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ جب اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، وزیر اعظم کو ذاتی طور پر بریف کریں گے تووہ اِس عدالتی حکم کی جانب بھی ان کی توجہ دلائیں گے۔ عدالت نے اپنے تحریری حکم میں کہا ہے کہ ہم سیکرٹری کابینہ ڈویژن کی جانب سے رولز آف بزنس کی سمجھ بوجھ کے حوالہ سے بھی متفکر ہیں جن پرانہوںنے سختی سے عملدآمد کرواناہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 15اگست تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل، سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی اعزاز اے ڈار اور چیئرمین وفاقی ترقیاتی دارہ(سی ڈی اے) چوہدری محمد علی رندھاوا کو دوران سماعت پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔