ملک میں کوئی صاحب نہیں، قیام پاکستان پر ہم آزاد ہو گئے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی اور وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد روک دیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ  سارے کام وزارت داخلہ  کو دے دیں، تعلیم ، صحت قانون کی وزارتیں بھی انہیں دے دیں،  بلکہ ایک ہی وزارت بنادیں،ہمیں اپنے احکامات پر عمل کرنا آتا ہے اورجو نہیں کرے گااسے ٹھیک کرنابھی آتا ہے۔ پاکستان میں کوئی صاحب نہیں، 1947میں ہم آزاد ہو گئے تھے،میں صاحب کے لفظ سے اکتا چکاہوں۔

سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل کیا ملک کے مالک ہیں،وہ  ہمارے اورملک کے عوام کے ملازم ہیں، بیوروکریسی کی حالت یہ ہے اپنے بھائی کاکام کرتے ہیں، لقمان علی افضل سیکرٹری کابینہ کے بھائی سگے ہیں، یہ کام ایسے ہی ہوگیا ، عام لوگوں کے کام نہیں ہوتے،وزیر اعظم کی خدمت کریں گے یا پاکستان کے عوام کی خدمت ۔پارلیمنٹ قانون پاس کرے اورصدر اس پر دستخط نہ کرے کیا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے، رول آف دی گیم سیکھیں، اگر عدالتی حکم پر عمل نہیں کریں گے توہین عدالت کانوٹس جاری کرنے پت مجبور ہونگے ۔مارگلہ نیشنل پارک وزارت داخلہ کو چلا گیا ، وزارت داخلہ کو اورکوئی کام نہیں، کوئی دہشت گردی نہیں، ملکی بارڈر محفوظ ہیں، امن وامان ٹھیک ہے، سارے کام اِن کو دے دیں، تعلیم ، صحت اورقانون کی وزارتیں بھی انہیں دے دیں، ایک ہی وزارت بنادیں۔

عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان منصورعثمان اعوان، وزیر اعظم کی کوآرڈینٹر برائے ماحولیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم، سیکرٹر ی کابینہ ڈویژن کامران علی افضل اورسیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی عدالت میں پیش ہوگئے۔  اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی ہے کہ مارگلہ نیشنل پارک کو وزارت داخلہ سے  واپس لیا جائے گا۔ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن رینا سعید خان کوبھی عہدے سے ہٹانے کا اقدام واپس لے لیا جائے گا۔جبکہ عدالت نے وفاقی ترقیاتی ادارے سے مارگلہ نیشنل پارک میں بننے والے پائن سٹی منصوبی کامکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن نے اسلام آباد وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن کو عہدے سے ہٹانے اور اسلام آبانیشنل پارک کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے معاملہ پر بلال حق اور رینا سعید خان کی جانب سے دائر توہین عدالت کی 2درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے محمد عمر اعجاز گیلانی بطور وکیل پیس ہوئے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس پیش ہوئے۔چیف جسٹس کا ملک جاوید اقبال وینس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کی کارکردگی سے بہت متاثر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کا کیا مونال ریسٹورانٹ کے مالک لقمان علی افضل، سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل کے بھائی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اور کامران علی افضل کوابھی بلائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تین چیزیں غیر قانونی کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن رینا سعید خان ہمارے سامنے درخواست گزارتھیں اور یہ عوامی مفادکامعامل تھا، اسلام آبانیشنل پارک کہ پہلے وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے تحت تھا اسے ان لوگوں کے حوالہ کردیا جو لوگ ملک میں جوائم اور امن وامان کی صورتحال دیکھتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر بھائی ، بھائی کی مدد نہیں کرے گاتوکون کرے گا، کامران علی افضل نے سمری وزیر اعظم کے سامنے رکھی، اس سے بڑی اس عدالت کی توہین نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کیا کیا سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل ملک کے مالک ہیں، کامران علی ہمارے اورملک کے عوام کے ملازم ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معاملہ کی فوراً وزیر اعظم کواطلاع دیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کامران علی افضل اور اٹارنی جنرل کوبلالیں۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کمرہ عدالت سے چلے گئے اورعدالت نے دیگر کیسز کی سماعت کی۔ عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ مجھے ہدایات ملی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کوہدایت کی کہ وہ سیکرٹری کابینہ کو بلالیں۔ عدالت کے طلب کرنے پر سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل عدالت میں پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس کاسیکرٹری کابینہ ڈویژن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ پاکستان میں سینئر ترین بیوروکریٹ ہیں۔

اس پر کامران علی افضل کاکہناتھا کہ میں سینئر ترین نہیں بلکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سینئر ترین بیوروکریٹ ہیں۔ کامران علی افضل کاکہنا تھا کہ مونال ریسٹورانٹ کے مالک لقمان علی افضل میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے مونال ریسٹورانٹ تین ماہ میں بند کرنے کاحکم دیا تھا آپ نے اچھے بھائی کی طرح  اسلام آباد وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن کوسزادی اوران کوہٹادیا،یہ کافی نہیں تھا، کیا پاکستانی پولیس کو دہشت گردوں کا پیچھا کرنے اور امن وامان کاکام کرنے کے لئے نہیں۔ کامران علی افضل کاکہنا تھا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا، میں ساراریکارڈلے کرآیا ہوں، اس کے بعد کامران علی افضل نے فائل چیف جسٹس کو دے دی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر اچھی وضاحت نہیں کریں گے توہم توہین عدالت کی فرد جرم عائد کریں گے، ہم بات کررہے ہیں تودرمیان میں نہ بولیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رینا سعید کاجرم یہ تھا کہ وہ عوامی مفاد کامعاملہ عدالت میں لائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رینا سعید کوعہدے سے ہٹانے کی سمری میں لکھا ہے کہ ان کو3سال عہدے پر مکمل ہو گئے ہیں اس لئے اُن کو عہدے سے ہٹایا جائے اوران کی جگہ ایڈیشنل سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کو3ماہ یا جب تک نئی چیئرپرسن کاتقرر نہیں ہوتا انہیں قائمقام چیئرمین مقررکیا  جائے ۔ اس پر کامران علی افضل کاکہناتھاکہ میں نے سمری نہیں بھجوائی نہ مجھے کوئی آئیڈیا ہے، صرف یہ پتا ہے کہ ان کوتین سال پورے ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی اعزاز ڈار ہیں ان کو بھی بلالیں۔ سیکرٹری کابینہ کی جانب سے وزیر اعظم صاحب کہنے پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کیااور کہا کہ پاکستان میں کوئی صاحب نہیں، 1947میں ہم آزاد ہو گئے تھے،میں صاحب کے لفظ سے اکتا چکاہوں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کہتے میرے بھائی کے حوالہ سے معاملہ ہے میں نہیں کرتا۔ چیف جسٹس کاکامران علی افضل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ بیوروکریٹ ہیں، عام سائل کی طرح باتیں کرکے خود کو شرمندہ نہ کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کے بھائی دیگر لوگوں کے ساتھ مل کرمارگلہ نیشنل پارک کوتباہ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں اپنے احکامات پر عمل کرنا آتا ہے اورجو نہیں کرے گااسے ٹھیک کرنابھی آتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نیشنل پارک کاوزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے، سکرٹری کابینہ ڈویژن کیا قانون سے بالاتر ہیں، اٹارنی جنرل! ہم ان پر توہین عدالت کی فر د جرم عائد کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا وزارت داخلہ کی اہلیت ہے کہ وہ پارکس کاتحفظ کرے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا لندن، امریکہ اور رو س میں پولیس پارکس کودیکھتی ہے، ہم عقل کل ہیں، ہم توصاحب ہیں۔

اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ وفاقی حکومت نوٹیفیکیشن واپس لے لے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم کوآگاہ کرنا تھا کہ میرے بھائی کاکیس ہے، اس کوچھونا بھی نہیں چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیسے وزارت داخلہ پکچر میں آئی، ہم لکھیں گے یہ پاکستان کے دشمن کے طور پرکام کررہے ہیں، سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کہہ رہے ہیں کہ اسلام آبانیشنل پارکو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پہلے میجرجنرل نے اٹھا کردیا، یہ اُن کا ملک نہیں، ان کانام کیا ہے ، وہ بھاگ رہے تھے اور فائلیں چھپارہے تھے، انہوں نے مونال اٹھاکرانہیں دے دیا، ملک ہے تماشا بناہواہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کامران علی افضل کے توہین عدالت لگائیں گے اوراٹارنی جنرل انہیں پراسیکیوٹ کریں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ اگر عدالت ایسا کرے گی توبطور پراسیکیوٹر یہ کام کریں گے۔ اس دوران وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے ماحولیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم عدالت میں پیش ہوئیں۔چیف جسٹس کارومینہ خورشید عالم کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا کیا گریڈہے۔ اس پر رومینہ خورشید عالم کاکہنا تھا کہ میں رکن قومی اسمبلی ہوں۔

اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ رکن قومی اسمبلی ہیں، کیا یہ گڈگورننس ہے کہ نیشنل پارک کو وزارت ماحولیاتی تبدیلی سے وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں۔ اس پر رومینہ خورشید عالم کاکہنا تھا ایسا کرنا درست نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم عوام کے منتخب نمائندوں کااحترام کرتے ہیں، ایک بھائی کودوسرے بھائی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے، ہم منتخب لوگوں کی قدرکرتے ہیں، لوگ ان پرچڑھائی کرتے ہیں جبکہ ججز اور بیوروکریٹس عوام کو جوابدہ نہیں، کیا یہ معاملہ مناسب بات ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرتوہین عدالت کی درخواست دائر نہ کی جاتی تویہ معاملہ ہوجانا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ پائن سٹی کیا ہے، پائن سٹی کچھ اورتعمیراتی کام شروع کررہے ہیں، میں نے کچھ دن قبل دیکھا کہ ہزاروں پوسٹرز لگے ہوئے تھے اور پارلیمنٹ کی دیوار پر بھی پوسٹرز لگے ہوئے تھے اس پوسٹر پرلکھا تھا درخت لگائو ، نیچے پائن سٹی لکھا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میجر جنرل نے پہلے ان کودے دیا اور بیوروکریٹس یہ ملک کے ساتھ کررہے ہیں۔

اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم کو پراپر ایڈوئس جائے گی اور یہ معاملہ منگل یا بدھ تک حل کرلیا جائے گا، منگل کے روز کابینہ اجلاس ہو گا، ہوسکتا ہے کہ سرکولیشن سمری کے زریعہ سے منظوری لے لی جائے۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ ہم نے لقمان علی افضل کی اپنی استدعا پر مونال ریسٹورانٹ منتقل کرنے کے حوالہ سے 3ماہ کاوقت دیا تھا، ابھی تک ہم نے دیکھا نہیں کہ کاروبارختم کرنا شروع کیاہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نمبر ایک چیئرپرسن کاتبادلہ کردیا ، نمبر 2نیشنل پارک وزارت داخلہ کے ماتحت کردیا اور رتیسراہائوسنگ اسکیم بنائو۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ منگل کوکابینہ کااجلا س ہے ، یہ معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پائن سٹی کامکمل ریکارڈلائیں۔ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کاکہنا تھا کہ اگر انہوں نے کوئی ناگواربات کی ہوتووہ اس پر معذرت خواہ ہیں، عدالت کے احترام میں عدالتی سوالوں کاجواب دینے کی کوشش کررہے تھے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معذرت کرنی ہے توپاکستان کے عوام سے کریں، ہم پاکستان کے عوا م کے حوالہ سے متفکر ہیں۔اتارنی جنرل نے کامران علی افضل کوخاموش کروانے کی کوشش کی تواس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ، سیکرٹری کابینہ کے اظہار رائے کے حق کودبارہے ہیں۔ کامران علی افضل کاکہنا تھا کہ نیشنل پارک کو دوزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی سمری ایڈیشنل سیکرٹری وزیر اعظم آفس سارااسلم نے بھجوائی تھی، میں نے سمری نہیں بھجوائی تھی۔چیف جسٹس نے کامران علی افضل سے استفسار کیا کہ آپ نے سوال نہیں کیا، کابینہ سیکرٹری رولز کاگارڈین ہے، رول10کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ چی جسٹس کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم صاحب نہیں ہوتا بلکہ نام کے ساتھ صاحب لکھ سکتے ہیں،غلامی کی زنجریریں توڑدیں، ہمارے بزرگوں نے غلامی کی زنجریریں توڑدی تھیں،گورے کو بلائیں وہ اچھا ملک چلالے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ہم کہیں کہ قانون اٹھا کرباہر پھینک دیں تو کیا پھینک دیں گے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بادی النظر میں نوٹیفکیشن توہین عدالت ہے۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ سرکولیشن سمری کے زریعہ کابینہ سے وہ نوٹیفیکیشن واپس کروادیں گے اوران نوٹیفیکیشنز پر عمل نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رول آف دی گیم سیکھیں، اگر عدالتی حکم پر عمل نہیں کریں گے اور ہمیں مجبورکریں گے توہم توہین عدالت کانوٹس جاری کریں گے۔اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ وہ چیمبر میں پیش رفت کے حوالہ سے بتادیں گے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیمبر میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں بتائیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کیس کی سماعت 15اگست کورکھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ریناسعید خان کو عہدے سے ہٹانے کونوٹیفیکیشن 19جولائی کاہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت ماحولیاتی تبدیلی کوعہدے کااضافی چارج دیا جائے۔ بدنیتی کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کامران علی افضل، لقمان علی افضل کے بھائی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی اعزاز ڈار آگئے ہیں۔ اس پر سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس کاان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آپ ڈی یم جی افسر ہیں۔ اس پر اعزازڈارکاکہنا تھا کہ گریڈ22کے ڈی ایم جی افسر ہیں۔ اعزاز ڈار کاکہنا تھا کہ انہوں نے رینا سعید کوہٹانے کی سمری نہیں بھجوائی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا رینا سعید نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ان کو ریلیف مل گئی ان کو جیل میں ڈالنا چاہیئے، کیسے ہٹایا ان کو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا سچ بولنے کی اہلیت ہے، آپ کوتوہین عدالت کانوٹس جاری کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست دائر کرنے یاتفصیلی فیصلہ کرنے سے پہلے ہٹادیتے، یا بیوی نے کہا تھا، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سچ بولنا اتنا مشکل ہے۔ سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کاکہنا تھا کہ انہیں وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے ماحولیاتی تبدیلی نے کہا تھا۔ اس پر رومینہ خورشید عالم کاکہناتھا کہ میں نے نہیں کہا۔ چیف جسٹس سیکرٹری ماحولیاتی تبدیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو یہ کہیں گی کیا آپ کریں گے۔ سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کوآرڈنیٹر کومقررکیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اچھی وضاحت نہیں دیں گے توہم آپ کو توہین عدالت کانوٹس دیں گے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یا کہیں کہ غیر مرئی قوتیں وزارت چلارہی ہیں،کیا آپ لوگ پاکستان کے ساتھ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ قانون پاس کرے اورصدر اس پر دستخط نہ کرے کیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے 2023میں قانون پاس کیا تاہم صدر نے منظوری نہیں دی اوراس دوران قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی۔ چیف جسٹس کااٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وفاقی سیکرٹریوں کی قانون کی کلاس کروائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم بھی معلوم کریں گے کس کے کہنے پر ہوا، یایہ کہیں میں خفیہ لوگوں کی خدمت کررہا ہوں جن کے کہنے پرکیا،میں پاکستان کے آئین کو نہیں مانتا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا وزارت ماحولیاتی تبدیلی سے وزارت داخلہ کے ماتحت کرنا درست ہے۔ اس پر سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کاکہنا تھاکہ نہیں ہونا چاہیئے۔ سیکرٹری کاکہناتھاکہ مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی ۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا وزیر اعظم سے کہا کہ یہ اچھا نہیں یہ نہ کریں، کیا کوئی اختلاف کرناریکارڈپر ہے، وزیر اعظم سے جاکربات کرنے کاسوچا ہی نہیں، باہر کوپ 29میں شرکت کرنے جانے کے لئے فوری ٹکٹ کٹوالیں گے۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی سے سوال کیا کہ آپ کے بچے ہیں۔ اس پر اعزازڈار کاکہنا تھا کہ میرے بچے نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پائن سٹی بن رہا ہے اس میں رکاوٹ نہ ڈالیئے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ بیوروکریسی کی حالت ہے اپنے بھائی کاکام کرتے ہیں، لقمان علی افضل ، سیکرٹری کابینہ کے بھائی سگے ہیں، یہ کام ایسے ہی ہوگیا ، عام لوگوں کے کام نہیں ہوتے، وزیر اعظم کی خدمت کریں گے یا پاکستان کے عوام کی خدمت کریں گے۔ چیف جسٹس کاسیکرٹری ماحولیاتی تبدیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اخبار میں خبر لگی تھی، آپ نے پڑھی نہیں یا کسی نے بتایا نہیں، وزارت کے 197ملازم ہیں ، ماگلہ نیشنل پارک وزارت داخلہ کو چلا گیا ، وزارت داخلہ کو اورکوئی کام نہیں، کوئی دہشت گردی نہیں، ملکی بارڈر محفوظ ہیں، 10سال بعد پاکستان میں کوئی قتل ہوتا ہے، پاکستان میں امن وامان ٹھیک ہے، سارے کام اِن کو دے دیں، تعلیم ، صحت اورقانون کی وزارتیں بھی انہیں دے دیں، ایک ہی وزارت بنادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ دوسیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے۔

کابینہ سیکرٹری نے کہا کہ نیشنل پارک کووزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے حوالہ سے کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی، کابینہ کی منظوری کی ضرورت نہیں تھی اوریہ وزیر اعظم کی صوابدیدہے جبکہ پہلے کیسز میں کابینہ سے منظوری لی گئی تھی۔ سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کاکہنا تھا کہ نیشنل پارک وزارت داخلہ کے ماتحت نہیں ہونا چاہیئے۔ اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ نیشنل پارک کاانتظامی کنٹرول وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے پاس ہی ہونا چاہیے۔وزیر اعظم کومناسب ایڈوائس نہیں ملی۔ وزیر اعظم اور کابینہ کی توجہ اس معاملہ پر دلائیں۔پائن سٹی کی تفصیلات اوربینرز کے حوالہ سے بھی بتائیں،کیا یہ منصوبہ اوراس طرح کے دیگر منصوبے پائپ لائن میں ہیں اورسی ڈی اے نے ان کی منظوری دی۔ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ نوٹیفیکیشن واپس لیا جائے گا اور رینا سعید خان واپس پوزیشن پر بحال ہوجائیں گی۔عدالت نے ہدایت کہ وفاقی حکومت کوئی عدالتی حکم جاری ہونے سے قبل تحریری جواب جمع کروائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15اگست تک ملتوی کردی۔