’’آخر گِل اپنی، صرفِ در ِمیکدہ ہوئی …پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘، (آخر میرا وجود ’’اگرتلہ‘‘ کی زمین پہ جا کر ہی مِٹا کیونکہ جسم کی یہ مٹی وہیں گوندھی گئی تھی)۔ اگرتلہ (تری پور ،بھارت) میں وجود پانیوالی سازش اور شیخ مجیب الرحمن کا مقبول بیانیہ بالآخر اگرتلہ میں ہی دفن ہونا تھا۔ حسینہ واجد کو بھارتی مشیر قومی سلامتی اجیت دول نے اگرتلہ میں بحفاظت وصول کیا اور دہلی پہنچایا تو بنگلہ دیش کی اونچی عمارتوں پر بنگلہ دیش اور پاکستان کا جھنڈا ساتھ ساتھ لہرا رہے تھے۔ کرشمہ ہی! چار ہفتے پہلے مکتی باہنی کی تیسری نسل کو سرکاری ملازمتوں کے 30فیصد کوٹہ کیخلاف بنگلہ دیش کے طول وعرض میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوا۔ وزیراعظم حسینہ واجد کی رعونت، ’’مجاہدین آزادی کو ملازمتیں نہ دیں تو کیا رضاکاروں کو دیں‘‘۔ پاکستانی فوج کی حمائت میں 1971ءمیں لڑنے، مرنے والے رضا کار کہلائے تھے۔ اسی پس منظر میں پلک جھپکتے مظاہرین کا فلک شگاف نعرہ ’’تمی کے امی کے، رضاکار رضارکار‘‘، الشمس والبدر کے شہداء پاکستان کیساتھ آج تمہیں بنگلہ دیش کی ہوائیں سلام کہہ رہی ہیں۔ ڈاکٹر یونس بطور وزیراعظم چند گھنٹوں بعد حلف اٹھائیں گے، امید ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو امریکی مہرہ نہیں بنائیں گے۔
15 اگست 1975ءکی خون آشام صبح، بھارت کا یوم آزادی، 90فیصد بنگالیوں کے بے تاج بادشاہ، قوم کو ’’غلامی سے نجات‘‘ اور ’’حقیقی آزادی‘‘ دلانے والا شیخ مجیب مع اہل خانہ اپنے ہی’’جیالوں‘‘ کے ہاتھ موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ دو عدد بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ بوجوہ بیرون ملک مقیم تھیں ورنہ اُسی دن نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔
اسی دن سرپرست اعلیٰ اندرا گاندھی’’لال قلعے میں علیٰ الصبح افواج کی پریڈ کے دوران روسٹرم پر موجود، مشیر سلامتی امور ایل کے جھا نے بنگلہ دیش میں انقلاب اور شیخ مجیب الرحمن کی ہلاکت کی سرگوشی کی تو سر تھامے فنکشن ادھورا چھوڑ دیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں ایمرجنسی میٹنگ بلائی، دورانِ میٹنگ حواس باختگی کے عالم میں آدھے گھنٹے میں 30/40 سگریٹ سلگائے کبھی کش لیتی اور کبھی بجھاتی رہی، فوری طور بنگلہ دیش پر فوج کشی کا حکم دے ڈالا۔ جنرل اِبان سنگھ ، مکتی باہنی کے ہر انقلابی رکن کی نس نس سے گہری شناسائی، بھارتی وزیراعظم کو انتہائی قدم سے باز رکھا۔ اعلیٰ ترین مشاورتی اجلاس میں موجود سیاسی اور عسکری رہنماء، باجماعت سب نے تائید کی۔ اندرا گاندھی نے غصہ اور فرسٹریشن میں اپنا مُکا میز پر مارا کہ ’’بنگلہ دیش کا قیام انکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی‘‘۔ (پاکستان تا بنگلہ دیش، کرنل شریف الحق دالیم)۔ مجیب کا بیانیہ ڈوب چکا تھا، پاک فوج کے حامی رضاکار تب بھی سرخرو رہے۔
شیخ مجیب الرحمن کے قتل پر بھارت سرزمین سے مکمل بے دخل ہو چکا تھا۔ حسینہ واجد بچنے میں کامیاب نہ ہوتیں تو مجیب کا بیانیہ اسی دن ناپید ہو چکا ہوتا۔ 90فیصد بنگال کے مقبول لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو 90فیصد بنگالیوں نے ہی تو غدار بتایا۔ مجیب کی موت کیساتھ ہی بنگلہ دیش، پاکستان کیساتھ شیر و شکر ہو گیا۔ بھارتی میڈیا نے مجیب الرحمن کے قتل کو ISI کا شاخسانہ بتایا۔ 1988 میں پاکستان کرکٹ ٹیم، بھارتی کرکٹ ٹیم کیخلاف میچ کھیلنے ڈھاکہ پہنچی تو پورا بنگلہ دیش پاکستانی ٹیم کو خوش آمدید کہنے اُمڈ آیا۔ کپتان عمران خان نے واپسی پر بتایا کہ ساری زندگی ایسا جذباتی محبت والا منظر نہیں دیکھا۔ سٹیڈیم کےاندر باہر بلکہ ہوٹل تک سارے راستے جذباتی مناظر سے بھرے تھے۔ بنگالیوں کی محبت ٹھاٹھیں مار رہی تھی، آنسوں کا سیل رواں ہر چہرہ پر تھا۔ بتائیں مجیب غدار تھا یا نہیں؟
پاکستان بنتے ہی، بھارت نے ختم کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ بھارتی’’را‘‘ نے 3دہائیوں سے تیار کردہ مہروں کو اگرتلہ کے مقام پر باقاعدہ اکٹھا کیا اور پاکستان توڑنے کا روڈ میپ بنایا۔ 1948سے آج تک ایسے ایشوز اور معاملات پر بھارتی مداخلت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد، اکثر ملزموں نے فخریہ اعتراف کیا۔ بھارت اورRAWنے اِسے تاریخی کارنامہ بتلایا۔ 2011، برسوں بعد بنگلہ دیشی پارلیمان میں ایک باقاعدہ بحث ہوئی، اگرتلہ سازش کا کور ممبر اور اس وقت ممبر پارلیمان کیپٹن سخاوت علی نے پارلیمان میں فخریہ اعتراف کیا کہ سازش من وعن حقیقت تھی۔ جب وہ پاکستانی فوج میں تھا تو چند ساتھیوں کیساتھ اگر تلہ میں بھارتی RAW کیساتھ مل کر علیحدگی کی منصوبہ بندی کی۔ فوج، نیوی، سویلین اگرتلہ میں اکٹھے ہوئے تاکہ حقیقی آزادی حاصل کی جا سکے۔ شیخ مجیب ہمیشہ سے اپنی قومی سیاست کیساتھ ساتھ ایک متوازی پلان آگے بڑھا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان علیحدہ کرنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ متحدہ پاکستان نے قومی سیاست کیساتھ بنگالی قومیتی سیاست بھی مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔ مغرب طرف منہ تو پاکستان متحد رہے گا، صرف 6 نکات منوانا ہیں۔ مشرق کی طرف منہ، توعلیحدگی کی حمائت اور حوصلہ افزائی مع قدم بہ قدم حصہ۔
اگرتلہ (بھارت) کے خمیر سے وجود پانیوالی پاکستان توڑنے کی سازش کا انجام مجیب سے ہوتا ہوا حسینہ واجد کے عبرتناک انجام پر اختتام پذیر ہوا۔ آج تضحیک سے شیخ مجیب کی تصاویر، بت، نشانات، جوتوں اور ہتھوڑوں کی زد میں ہیں۔ وزیر اعظم مودی سے لیکر حسینہ کا بیٹا مستحب واجد حیران و پشیماں کہ رضا کاروں کا کیسا سونامی تھا جو عوامی لیگ کی 90فیصد مقبولیت والے سونامی کو ہڑپ کر گیا۔ ایسے وقت جبکہ حسینہ کا انجام والد شیخ مجیب جیسا چُنا جا چکا تھا، کمال مہارت سے اسکو بھگا دیا گیا۔ قیامت کا منظر، عوامی لیگ سے متعلق لیڈر، ورکر سب اپنی جان بچاتے اگرتلہ بھارت کا رخ کر چکے ہیں۔ درجنوں قتل، بیسوں گھر خاکستر ہو چکے ہیں۔
موقع غنیمت جان کر، عمران خان نے چند ہفتے پہلے اپنا موازنہ شیخ مجیب سے کیا، مقصد فوج کو زیر کرنا تھا۔ مطلب! شیخ مجیب کی مقبولیت کو طاقت سے کچلنے سے تباہی آئی تھی، چشم تصور میں پاکستان ٹوٹتا دیکھ رہے تھا۔ آج اور 1971مشرقی پاکستان کے حالات کا تقابلی جائزہ یا شیخ مجیب الرحمن غدار تھا یا جنرل یحیٰ غدار پر بحث شروع کرنا، ایک خواہشات کا انبوہ نظر آ یا ۔ عمران خان جب یہ سب کچھ بتا رہے تھے، حسینہ واجد کا انجام وہم و گمان میں نہ تھا۔ آج حسینہ واجد کے انجام کو نواز شریف سے جوڑ رہے ہیں۔ اب جبکہ حسینہ واجد کا انجام سامنے، حسبِ معمول پلٹا کھایا مگر بات نہ بن پائی۔ مقبول سیاست کے زعم میں پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کا انجام آج سامنے ہے۔ مقبولیت کی آڑ میں بھارت اور امریکی ایجنسیوں کو اپنی مقبولیت پر سوار کرنا، پاکستان کو نقصان پہنچا کر، پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کا عزم، خاطر جمع! عبرتناک انجام رہنا ہے۔ آج تازہ بہ تازہ تاریخ کے اوراق سامنے، مجیب، الطاف، حسینہ واجد تاریخ میں کہاں کھڑے ہیں؟ اصل غدار کون! تاریخ نے فیصلہ دے دیا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ