کشمیرکونسل یورپ 4 اگست 2024 کو برسلز میں ایک احتجاجی کیمپ کا انعقاد کرے گا


برسلز(صباح نیوز)کشمیر کونسل یورپ (کے۔ سی۔ ای۔ یو) نے اعلان کیا ہے کہ وہ 4 اگست 2024 بروز اتوار بلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں احتجاجی کیمپ لگائے گی۔یہ احتجاج یورپی ہیڈ کوارٹر برسلز میں سینٹرل ٹرین اسٹیشن کے سامنے یورپ اسکوائر پر دوپہر ایک بجے منعقد ہوگا۔ایک بیان میں چیئرمین کشمیر کونسل یورپ (کے۔ سی۔ ای۔ یو) علی رضا سید نے کہا ہے کہ احتجاجی کیمپ کے علاوہ وہ  4 اگست 2024 کو برسلز اور دی ھیگ میں پاکستانی سفارتخانوں میں تقریبات اور ایک ویبنار سے بھی خطاب کریں گے۔

ان پروگراموں کا مقصد 5 اگست 2019 کے بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور کشمیریوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین نے کہا کہ اگرچہ کشمیرکے مظلوم لوگ 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج کے ہاتھوں اپنی سرزمین کے بڑے حصے پر قبضے کے بعد سے ہی بھارتی مظالم کا شکار ہیں لیکن 5 اگست 2019 کے بعد کشمیرمخالف بھارتی اقدامات سے کشمیریوں کی مشکلات اور مصائب میں مزید اضافہ ہوا ہے۔علی رضا سید کے مطابق، کشمیری سیاسی شخصیات، انسانی حقوق کے کارکن، سماجی طور پر سرگرم افراد اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھارتی جیلوں میں ہے اور یہاں تک کہ بھارتی حکومت نے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت بھارت نواز سیاسی رہنماں کو میسر بنیادی ضروری سیاسی سہولیات بھی ختم کر دی ہیں۔علی رضا سید نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت زیرقبضہ علاقوں میں بھارتی فورسز کی جانب سے مظالم بالخصوص ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور بھارتی فورسز ان مظالم کے لیے کالے قوانین کا استعمال کررہی ہیں۔پچھلے پانچ سالوں میں، جموں و کشمیر کے ڈومیسائل کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے لاکھوں غیر کشمیریوں کو ریاست (جموں و کشمیر) کے رہائشی ہونے کا درجہ دیاہے۔  مزید برآں، مقبوضہ جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع میں ہزاروں کنال اراضی کو غیر معینہ مدت کے لیے مختص کیا گیا ہے تاکہ انہیں سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کے نام پر غیر ریاستی لوگوں کو الاٹ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ ریاستی حکام مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیشنل لا یونیورسٹی سمیت ریاست کے تمام اعلی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز کے معاملات پر کنٹرول کھو چکے ہوں۔ یہاں تک کہ ریاست جموں و کشمیر کا ہندوں کے مقدس مقامات پر بھی کنٹرول ختم کردیا ہے اور بھارت کی مجاز اتھارٹی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سو موٹو نوٹس لے اوراپنی مرضی کے اقدامات کرے۔نہ صرف گولف اور دوسرے کلبز بلکہ تمام جنگلاتی زمینیں اور سیاحتی ترقی کے حکام اب نئی دہلی کے براہ راست زیر کنٹرول ہیں۔ دارالحکومت نئی دہلی میں تعینات بھارتی حکام مقبوضہ جموں و کشمیر میں کسی کو بھی بنیادی زمین لیز پر الاٹ کرسکتے ہیں اور سیاحتی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہاکہ یہ بھی اطلاع ہے کہ تمام کشمیری آئی اے ایس افسران کو کم اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے، جب کہ غیر ریاستی اہلکار جموں سے مقبوضہ وادی کی انتظامات چلا رہے ہیں۔علی رضا سید نے انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت عالمی برادری سے کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کروائے۔انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنی سرزمین کی آزادی اور آزاد سیاسی مستقبل کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں اس حق کو کسی دبا وکے بغیر استعمال کر سکیں۔۔