بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں انکشاف ہوا ہے کہ سرکاری افسروں کی بیگمات غیر قانونی طور پر امداد وصول کر رہی ہیں۔ کیا یہ بات ذہن مانتا ہے کہ گریڈ اٹھارہ اور گریڈ انیس کے افسران کی بیگمات بے نظیر انکم سپورٹ سے ماہانہ مسلسل امداد وصول کر رہی اور پکڑی جا رہی ہیں۔ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں صرف ایک ہزار سے زائد افسران کی بیگمات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ سے ماہانہ دو ہزار روپے کی امداد وصول کر رہی ہیں۔ کیا یہ کرپشن ہے۔ نہیں شاید یہ کرپشن سے بھی اوپر کی کوئی چیز ہے۔
ایک سرکاری افسر کی بیگم کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ سے اپنے نام پر دو ہزار روپے وصول کرنا کرپشن تو نہیں ہو سکتا ۔ کوئی بڑی رقم نہیں۔ کوئی ایسی رقم نہیں کہ اس کا لالچ کیا جائے۔دو ہزار روپے ماہانہ کی کرپشن ، یہ کرپشن نہیں، یہ اخلاقی پستی کا ثبوت ہے۔ ہم بحیثیت قوم اخلاقی طور پر کتنے گر گئے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے۔ ان افسران کی بیگمات کو دو ہزار ماہانہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہ ا خلاقی پستی کا ثبوت ہے۔
یہ افسران کوئی غریب لوگ نہیں، ان کو شاید دو ہزار کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دو ہزار ان کے لیے کوئی اہم بھی نہیں ہیں، ا ن دو ہزار سے ان کی دولت میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہورہا ۔ لیکن پھر بھی وہ یہ کام کر رہے ہیں، ان کی بیگمات یہ کام کر رہی ہیں۔ یہ افسران کو ئی ان پڑھ جاہل لوگ نہیں ہیں کہ ہم کہہ دیں کہ یہ اپنی جہالت میں یہ کام کر رہے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ یہ کام کر رہے ہیں۔ شاید اب ہمارے سرکاری افسر کو شرم بھی نہیں آتی ہے ۔
اگر یہ کام کسی سیاستدان نے کیا ہوتو ہم سمجھتے کہ سیاستدان ہوتے ہی ایسے ہیں۔ اس لیے ان کی کیا بات کرنی۔ سیاستدان کو اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی عادت ہوتی ہے، اس لیے وہ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن سرکاری افسران سے ایسی توقع نہیں تھی۔ یہ درست ہے کہ ہمارا سرکاری افسر کرپٹ ہوچکا ہے، وہ پیسے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔لیکن غریبوں اور یتیموں کا مال بھی کھانے لگ گیا ہے، اتنا گر گیا ہے، اس کا بھی کیا ہمیں اندازہ تھا۔ کیا ہمیں اندازہ تھا کہ یہ غریبوں کا دو ہزار بھی نہیں چھوڑے گا۔
یہ تو ممکن تھا کہ یہ سرکاری افسر اپنے من پسند غریبوں کو یہ رقم لگا دیتے۔ ایسے لوگوں کو یہ رقم لگو ادیتے جو اس کے اہل نہیں تھے۔ ممکن تھا کہ گھر میں کام کرنے والے نوکروں کے لگوا دیتے۔ گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کے لگوا دیتے اور پھر ان کی تنخواہ کم رکھتے۔ گو کہ یہ بھی غیر قانونی تھا۔ یہ بھی اخلاقی پستی تھی۔ لیکن بیگمات کے نام پر پیسے لینا تو ایک اور ہی بات ہے۔ آپ نے پہلے تو اپنی بیگم کو بہت غریب ظاہر کیا۔ پھر شاید اس کو بیوہ بھی ظاہر کیا۔ اگر بیوہ نہیں ظاہر کیا تو خود کو بیمار ظاہر کیا۔ کہیں خود کو معذور ظاہر کیا۔ کہیں خود کو بے روزگار ظاہر کیا۔ اور پھر جا کر اپنی بیگم کو دو ہزار روپے کی زکو لگوائی۔ آپ ایک افسر ہیں اور دو ہزار روپے کے لیے اپنی ہی تذلیل کر رہے ہیں۔
مظفر گڑھ اور کو ٹ ادو جیسے پسماندہ جیسے شہروں کے ہائی وے افسران ان میں شامل ہیں۔ وہاں سے گریڈ اٹھارہ اور گریڈ انیس کے 37 افسران کی بیگمات دو دو ہزار روپے لیتی پکڑی گئی ہیں۔ اب ان کی تنخواہوں سے یہ دو دو ہزار روپے واپس کاٹے جا رہے ہیں۔ اسی طرح محکمہ تعلیم کے افسران بھی شامل ہیں۔ محکمہ زراعت کے افسران کی بیگمات بھی شامل ہیں۔ غرض کے ہر محکمہ کے افسران نے خود ہاتھ دھوئے ہیں۔ کوئی پیچھے نہیں ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان افسران سے دو دو ہزار روپے کی رقم کی واپسی کافی ہے۔ کیونکہ اطلاعات کے مطابق ان سے فی الحال رقم کی واپسی کے احکامات ہی ہوئے ہیں۔ اور یہ افسران خوشی خوشی اب رقم واپسی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ ان کی پورے ملک میں کیا تعداد ہوگی۔ صرف مظفر گڑھ ضلع میں ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔اب اندازہ کریں پورے ملک میں ان کی تعداد کتنی ہوگی۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ صرف یہ افسران مظفر گڑھ میں ہیں، باقی کہیں نہیں۔پنجاب کی حکومت کو اس کام کو سنجیدگی سے کرنا چاہیے مکمل تحقیقات کی جائیں۔ ایک ایک نام سامنے آئے کوئی بچ نہ جائے۔
اب جب اس حوالے سے کریک ڈاؤن شروع ہی ہوگیا ہے۔ تو اگر ایک ضلع میں ایک ہزار افسر تو پورے ملک میں کئی ہزار ہونگے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب ان سب کے ساتھ کرنا کیا ہے۔ کیا صرف رقم کی واپسی کافی ہے۔ میری رائے میں دو دو ہزار یا کچھ ہزار کی رقم کی واپسی کوئی سزا نہیں۔ پہلی بات تو یہ ان کے نام چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان افسران اور ان کی بیگمات کے نام پبلک کیے جائیں۔ قوم کو ان افسران کے نام جاننے کا حق ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے، یہ کون لوگ ہیں۔ ان کے نام اخبارات میں شایع کیے جائیں، ٹی وی پر چلائے جائیں، سوشل میڈیا پر دیے جائیں۔ یہ قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہونے چاہیے۔
اس کے ساتھ ان کو کم از کم نوکری سے ضرور فارغ کرنا چاہیے ۔ویسے تو انھوں نے ریاست کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ غریبوں کا مال کھایا ہے۔ یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کو صرف نوکری سے نکالنا بھی کافی نہیں۔ بلکہ ان کو اور ان کی بیگمات کو گرفتار بھی کرنا چاہیے۔
ریاست کے ساتھ فراڈ اور دھوکا دہی کے تحت فوری کارروائی ہونی چاہیے۔ ان کے ٹرائل کی لائیو کوریج بھی ہونی چاہیے۔ یہ کرپشن کی سب سے بھیانک شکل ہے۔ اس لیے سخت سزا ہونی چاہیے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ افسر شاہی نے ان کو بچانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان سے اسی لیے فی الحال صرف رقم کی واپسی کے احکامات دیے گئے ہیں۔ یہ سب افسران نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنی اپنی پر کشش سیٹوں پر براجمان ہیں۔ ان میں کسی کو او ایس ڈی بھی نہیں کیا گیا۔ بس ان کی تنخواہ سے پیسے واپس کاٹے جا رہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ کس قدر انحطا ط کا شکار ہو گیا ہے۔ اگر کوئی غریب ایسا کرتا تو ہم اس کی غربت کو اس کا جواز سمجھ سکتے تھے۔ لیکن سرکاری افسران کی جانب سے ایسا کام مردہ ضمیری اور اخلاقی پستی کا ہی ثبوت ہے۔ یہ سرکاری افسر رہنے کے قابل نہیں۔ یہ ڈاکوں کی بھی بدترین شکل ہیں۔ جو دو دو ہزارنہیں چھوڑ رہے۔ وہ اور کیا کیا کر رہے ہونگے۔ اس لیے ان کو نوکری سے نکالنا چاہیے۔ گرفتار کرنا چاہیے اور جیل میں ڈالنا چاہیے۔ اس سے کم کچھ نہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس