دیسی اشیا کو غذا کا حصہ بنانے سے اہلیہ کینسر کے مرض سے صحت یاب ہو گئیں ،نوجوت سنگھ سدھو


نئی دہلی (صباح نیوز)انڈیا کے سابق کرکٹر اور پنجاب کانگریس کے سابق صدر نوجوت سنگھ سدھو نے اعلان کیا ہے کہ ان کی اہلیہ نوجوت کور سدھو اب کینسر کے مرض سے صحتیاب ہو گئی ہیں۔امرتسر میں اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس کے دوران سدھو نے دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ نے اپنی خوراک میں بعض اشیا شامل کر کے (یعنی خوراک کی مدد سے)سٹیج فور کینسر پر قابو پا لیا ہے۔نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ ان کی اہلیہ کی خوراک میں لیموں کا پانی، کچی ہلدی، سیب کا سرکہ، نیم کے پتے، تلسی، لوکی، انار، آملہ، چقندر اور اخروٹ جیسی غذائیں شامل تھیں جن کی بدولت وہ کینسر کے مرض کو شکست دے کر صحتیاب ہوئی ہیں۔  

\نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ ان کی اہلیہ مکمل طور پر کینسر سے صحت یاب ہو گئی ہے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سب کچھ ان کی مخصوص غذا کی وجہ سے ہوا۔نوجوت سنگھ سدھو نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کے علاج کے دوران نہ صرف کیموتھراپی ہوئی بلکہ ریڈیئیشن کے طریقہ علاج کو بھی اپنایا گیا تاہم اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحقیق کر کے کچھ مخصوص اجزا کو اپنی اہلیہ کی غذا سے نکالا اور چند دیسی اور خالص چیزوں کو ان کی غذا کا حصہ بنایا جس کے باعث وہ سٹیج فور کے کینسر سے صحتیاب ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے ان کی اہلیہ کے صحت یاب ہونے کے امکانات کو صرف چار سے پانچ فیصد قرار دیا تھا۔ نوجوت سنگھ سدھو نے دعویٰ کیا کہ اس دوران انہوں نے امریکہ کے ڈاکٹروں اور انڈیا کے ماہرین کینسر سے مشورے کرنے سمیت گھنٹوں میڈیکل تحقیق اور ایورویدک (دیسی طریقہ علاج)سے متعلق بہت مطالعہ کیا۔انہوں نے کہا کہ روزانہ گھنٹوں پر محیط تحقیق کے مطالعے کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ کی غذا سے گندم کا آٹا، ریفائنڈ میدہ، کاربوہائیڈریٹس، چینی، دودھ، ریفائنڈ تیل وغیرہ سب ختم کر دیا۔انہوں نے کہا کہ چینی یا مٹھاس مرض کو بڑھانے کا کام کرتی ہے اور اگر کینسر کے مریض کے کھانے کے اوقات میں وقفہ بڑھا دیا جائے اور کاربوہائیڈریٹس نہ دیئے جائیں تو کینسر کے خلیے جسم سے ختم ہونے لگتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ کی غذا میں لیموں کا رس، سیب اور لیموں کا سرکہ، نیم کے پتے، کچی ہلدی، لہسن، ادرک، چقندر، تازہ اور کچی سبزیوں کا استعمال، ناریل کے تیل میں پکا کھانا، بادام کا رس یا دودھ اور دیسی مصالحہ جات جن میں الائچی، کالی مرچ، دار چینی وغیرہ شامل تھے استعمال کی گئیں اور وہ ان چیزوں کے استعمال سے صحت یاب ہوئیں۔لیکن کیا واقعی میں ان کے ان دعوئوں میں کوئی حقیقت ہے؟ کیا طبی طور پر ادویات کے ساتھ ساتھ مریض کی خوراک میں ہلدی، لیموں پانی اور نیم کے پتوں کا استعمال کر کے کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے؟۔انڈیا کے ٹاٹا میموریل ہسپتال کے 262 موجودہ اور سابق کینسر ماہرین کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے۔ان ڈاکٹروں کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک سابق کرکٹر اپنی اہلیہ کے کینسر کے علاج کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ویڈیو کے کچھ حصوں کے مطابق، ہلدی اور نیم کے استعمال سے انہیں اپنے لاعلاج کینسر کا علاج کرنے میں مدد ملی۔ ان بیانات کی تائید کے لیے کوئی میڈیکل یا سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ٹاٹا میموریل کے کینسر کے ماہرین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ  ہم لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ غیر مصدقہ علاج پر عمل نہ کرتے ہوئے اپنے علاج میں تاخیر نہ کریں  بلکہ اگر کسی کو اپنے جسم میں کینسر کی کوئی علامت محسوس ہو تو وہ ڈاکٹر سے مشورہ کریں،

خصوصا کینسر کے ماہر سے مشورہ لیں۔کینسر کی ماہر ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ، جو موہن دائی اوسوال ہسپتال میں کینسر کے علاج کی ماہر ہیں، کہتی ہیں کہ میرے کلینک میں کم از کم 30-40 فیصد لوگ ایسے آتے ہیں جنہیں طویل عرصے سے کینسر ہوتا ہے۔ لیکن وہ علاج کے لیے جڑی بوٹیوں پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں جس کی وجہ سے مریض اکثر طبی مشورہ لینے کے بجائے جڑی بوٹیوں کے علاج کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر جو کچھ دیکھتے ہیں اس پر جلدی یقین کر لیتے ہیں اور خود علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کینسر قابل علاج ہے بشرطیکہ اس کا صحیح وقت پر علاج شروع کر دیا جائے۔ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ کہتی ہیں کہ اگر کسی کو کینسر کی کوئی علامت ہو تو فوری طور پر طبی مشورہ لینا ضروری ہے۔ خود سے اپنا علاج نہ کریں اور سوشل میڈیا پر موجود غلط معلومات پر عمل نہ کریں اور نہ ہی کوئی ایسی غذا شروع کریں۔ بروقت تشخیص اور طبی مدد نہ لینے سے کینسر کے مرض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔پاکستان میں فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک آنکولوجسٹ ڈاکٹر محمد طاہر بشیر بھی دیگر ماہرین سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بظاہر سدھو کے دعوے کہانیوں پر مبنی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ صحت مند زندگی گزارنے اور صحت بخش غذائیں کھانے سے کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ لیکن کسی کو کینسر کی تشخیص کے بعد اس کا علاج شروع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور نہ کوئی اور متبادل طریقہ علاج آزمانہ چاہیے۔ان کے مطابق جڑی بوٹیوں، بیجوں یا دیگر قدرتی اجزا کا استعمال مریضوں کی علامت کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے سائنسی شواہد کی کمی ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ اجزا کسی میڈیکل طریقہ علاج کا متبادل ہو سکتے ہیں۔انہوں نے تنبیہ کی کہ سائنسی طبی امداد سے انکار کرنا یا آنکولوجسٹ کی ہدایات کو نظر انداز کرنا مریضوں کی جان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگرچہ مناسب خوراک کینسر کے علاج کا اہم حصہ ہے تاہم اس مرض کا علاج محض خوراک اور طرز زندگی میں تبدیلی سے نہیں کیا جا سکتا۔انڈین پنجاب کے محکمہ صحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر جسبیر اولکھ کا کہنا ہے کہ ہماری کھانے پینے کی عادات بہت خراب ہو چکی ہیں۔ نوجوت سنگھ نے پریس کانفرنس میں خوراک اور ان میں ملاوٹ سے متعلق باتیں غلط نہیں کہیں، اگر ہم چند سال پیچھے جائیں تو ہم ان سادہ چیزوں کو روزانہ کی بنیاد پر کھاتے تھے۔ڈاکٹر جسبیر اولکھ کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں لوگ غروب آفتاب کے بعد کھانا نہیں کھاتے تھے اور پھر صبح کا پہلا کھانا صبح 10 بجے کے قریب کھاتے تھے، جسے اب انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ کہا جاتا ہے، یہ تمام چیزیں صحت کے لیے اچھی ہیں، لیکن یوں کہنا کہ یہ کینسر کا علاج ہیں تو یہ غلط ہو گا۔ ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ کہتی ہیں کہ صرف پانچ فیصد سے بھی کم معاملات میں کینسر کی وجہ معلوم ہو پاتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ کینسر کی وجہ عام طور پر نامعلوم ہی رہتی ہے۔ لیکن بہت سے حالیہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کینسر ہماری گٹ صحت یعنی آنتوں کی صحت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ کے مطابق اگر ہم کینسر کے علاج کی بات کریں تو اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا سرجری، دوسرا کیموتھراپی، تیسرا ریڈیئیشن اور چوتھا امیونو تھراپی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ دوران علاج یہ ضروری ہے کہ غذا یا خوراک ڈاکٹر یا کینسر کے ماہر کے ذریعہ تجویز کروائی جائے۔ آنکولوجی کی تعلیم کے دوران ہمیں علاج میں ضروری اچھی خوراک کے بارے میں سکھایا جاتا ہے۔ اس لئے مریضوں سے گزارش ہے کہ سماجی رویوں سے متاثر نہ ہوں، خود سے کچھ بھی کھانا یا پینا شروع نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔