سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد کیا ملک میں کوئی سیاسی بحران آگیا ہے؟ یہ کیا سیاسی بحران ہے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ سمجھنی کی ہے کہ کیا اس فیصلے کے بعد ملک میں قائم حکومت خطرے میں ہے؟ مرکزی حکومت کسی خطرے میں نہیں ہے۔ اگر یہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو مل بھی جائیں تب بھی شہباز شریف کی وزارت عظمی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس اپنی عددی اکثریت مکمل ہے۔
اس لیے مرکزی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بھی ن لیگ کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مریم نواز کی وزارت اعلی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی میں یہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو مل بھی جائیں تب بھی ن لیگ کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت محفوظ ہے۔ اگر نشستیں تحریک انصاف کو مل بھی جائیں تب بھی مراد علی شاہ کی وزارت اعلی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں سرفراز بگٹی کی وزارت اعلی محفوظ ہے۔مخصوص نشستوں کے اس فیصلے کے بعد بلوچستان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ حکومت قائم رہے گی۔ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت کے پاس پہلے ہی واضح اکثریت موجود ہے۔ اس لیے ان کو مزید اکثریت مل بھی جائے تو سیاسی منظر نامہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس لیے اس فیصلے سے کسی بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جو حکومت بن گئی ہے وہ محفوظ ہے۔
حکومتیں محفوظ ہیں۔ لیکن پھر بھی سیاسی بحران ہے۔ یہ بحران مختلف نوعیت کا ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان تناؤ اور محاذ آرائی پہلے ہی نظر آرہی ہے۔ اس فیصلے سے تناؤ اور محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس فیصلے کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں اس لڑائی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ اس لڑائی میں ہم پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط دیکھ چکے ہیں۔ اسی طرح ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کی جعلی سندکا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ ایک جج کے گرین کارڈ کا معاملہ سامنے آچکا ہے۔ اس لیے اس تنا اور محاذ آرائی کے کئی پہلو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آئی ایس آئی کو پہلی دفعہ باقاعدہ فون ٹیپنگ کی اجازت مل گئی ہے۔ اس لیے اس لڑائی میں اضافہ ہوگا۔ یہ ایک دلچسپ لڑائی ہے۔ جس میں براہ راست لڑائی نہیں ہو رہی ہے۔ بلکہ اس کو ہم پراکسی لڑائی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس فیصلے کے بعد ماحول مزید گرم ہوگا۔
مجھے اس فیصلے کے بعد پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی میں بھی اضافہ نظر آرہا ہے۔ پارلیمان اور عدلیہ کی لڑائی بھی نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے لڑائی ہوئی تھی تو ہم نے پارلیمان اور عدلیہ کی لڑائی دیکھی تھی۔ اور ہم نے دیکھا تھا کہ پارلیمان نے آئینی طور پر عدلیہ کو ایک بند گلی میں باندھ دیا تھا جہاں عدلیہ کے پاس اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ عدلیہ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کے فیصلے پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہو گئی تھی۔ پارلیمان نے پیسے روک لیے تھے۔ جس کا عدلیہ کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ عدلیہ پوری پارلیمان پر توہین عدالت لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی اور نہ ہی اپنے فیصلے پر عمل کروا سکی۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا۔ کیا اب بھی عدالتی فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو نہ دینے کا کوئی راستہ موجود ہے۔ اتنے سخت فیصلے کو روکنے کا کوئی راستہ موجود ہے؟ کیا حکمران اتحاد خاموشی سے یہ نشستیں تحریک انصاف کو دے دے گا۔ اور اگر نہیں دینی تو کیا ممکنہ راستے ہیں۔ شاید ابھی حکمران اتحاد بھی حکمت عملی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمران اتحاد کے پاس کیا آپشن ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکمران اتحاد کے پاس اسٹبلشمنٹ کی حمایت ہے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ا گر پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوتی ہے تو اسٹبلشمنٹ کی حمایت پارلیمان اور حکمران اتحاد کو حاصل ہوگی۔
پھر سوال یہ ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمان میں اس عدالتی فیصلے کے خلاف تقاریر کی جا سکتی ہیں۔ تحریک انصاف کے ارکان حق میں تقاریر کریں گے اور حکمران اتحاد کے لوگ خلاف تقاریر کریں گے۔ لیکن تقاریر سے فیصلہ ختم نہیں ہوجائے گا۔ فیصلہ پوری طاقت سے موجود رہے گا۔ اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ عمل نہ کرنے کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوگی۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ صرف تقاریر سے یہ معاملہ حل ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے پاس اس فیصلے پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ وہ کمزور ہے، ان پر توہین عدالت فوری لگ جائے گی۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس زیادہ آپشن نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسے قانونی نکات ہیں جن کے سامنے تحریک انصاف کو یہ نشستیں نہیں مل سکتیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ الیکشن کمیشن کی کوئی بات سنی جائے گی۔ جن آٹھ ججز نے یہ فیصلہ دیا ہے انھوں نے لکھا ہے کہ اگر کسی کو عملدرآمد میں کوئی مشکل ہو تو وہ ان ججز کے پاس آسکتا ہے۔ اس لیے اگر الیکشن کمیشن کوئی رکاوٹ ڈالے گی یہ ججز دور کر دیں گے۔
لہذا کچھ بھی ہونا ہے تو پارلیمان سے ہونا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہو سکتا ہے۔ کرنا بھی چاہیے کہ نہیں۔ جہاں تک مجھے اطلاعات مل رہی ہیں۔ خاموشی نہ رکھنے کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ یہ سوچ ہے کہ اگر آج اس فیصلے کو خاموشی سے مان بھی لیا جائے تو ایک اور فیصلہ آجائے گا پھر ایک اور فیصلہ آجائے گا۔ اس لیے اگر سلسلہ روکنا ہے تو اسی فیصلہ پر روکنا ہوگا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد روکنے کا اگر کوئی فیصلہ ہوگا تو پارلیمان میں ہی ہوگا۔
کیا پارلیمان سے ایک قرار داد پاس کروائی جائے گی جس میں ا سپیکر کو پابند کیا جائے گا کہ وہاں مخصوص نشستوں کے لوگوں کو حلف نہ دیں۔ اس طرح اگر الیکشن کمیشن ان کو نوٹیفائی کر بھی دے گا تب بھی اسپیکر ان کو حلف نہ دے گا۔ ان کو قومی اسمبلی میں داخلہ کی اجازت نہ دی جائے، ان کو حلف نہ دیا جائے۔ اگرایسا ہوتا ہے تو کیا ہوگا۔ کیا اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ا سپیکر کہیں گے کہ وہ پارلیمان کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ پھر سوال ہوگا کہ پارلیمان بالا دست ہے۔
عدلیہ پارلیمان سے اوپر نہیں۔ عدلیہ پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین کی پابند ہے۔ اس لیے دلچسپ صورتحال بن جائے گی۔اسپیکر ان کو حلف نہیں دیں گے۔ پھر کیا ہوگا ۔ جیسے پنجاب کے انتخابات کے فیصلے کے بعد ڈیڈ لاک ہو گیا تھا۔ ایسے ہی ایک مرتبہ پھر ڈیڈ لاک ہو جائے گا۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی ہو سکتا ہے۔ پھر سندھ اور بلوچستان میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ اس لیے حکمران اتحاد قومی سطح پر اور تین صوبوں میں ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جب کہ کے پی میں تحریک انصاف اس فیصلہ پر فوری عمل کروا سکتی ہے۔ تا ہم اگر ارکان کا حلف ہوجاتا ہے۔ پھر کوئی بحران نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا ہوتا مشکل نظر آتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس