سب سے پہلے تو اُس رحمٰن رحیم کا لاکھ لاکھ شکر کہ کرغزستان سے ہمارے سینکڑوں بیٹے بیٹیاں بخیر و عافیت وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ میں کرب میں مبتلا ہوں کہ ہماری ریاست، ہماری حکومتیں، ہمارے محکمے کتنے بے حس ہیں کہ اپنے قیمتی اثاثے اپنی توانائیوں اپنے مستقبل کو یوں کسی تحفظ کے بغیر دور دراز اجنبی بستیوں میں جانے دیتے ہیں۔یہ ہیرے ہیں۔ جن کی تراش خراش ہمیں ہی کرنا چاہئے تھی۔ میں نے جاننے کی کوشش کی کہ کرغزستان میں تعلیم کا معیار کیا ہے۔ کونسی زبان میں پڑھایا جاتا ہے درسگاہوں میں در اصل پاکستان تعلیم مافیا کی بھی سرمایہ کاری ہے اور یہ باقاعدہ تجارت ہے۔ اس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بھی نظر ہونی چاہئے تھی۔ ان بچوں بچیوں کے والدین کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ اس طرح اپنی منتوں مرادوں کو غیر ملکوں میں کیوں بھیجا جائے۔ انکی تعلیم کا اہتمام یہاں ہی کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں کبھی یہ مسئلہ زیر بحث آیا۔
ایک مملکت کیلئے اسکی حدود میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ اسکی پرورش، اس کی خوراک اسکی جان کی حفاظت۔ اسکی تعلیم اور وہ اگر کہیں باہر جارہا ہے تو ہمارے سفارت خانوں کے علم میں ہونا چاہئے۔ ریاست کو جب ماں کہا جاتا ہے تو کیا ماں اپنے جگر کے ٹکڑوں سے یوں غافل ہوسکتی ہے۔ میرا ضمیر میری سوچ کی رَو کو روک رہا ہے کہ کس ریاست کی بات کررہے ہو۔ جہاں تہذیب تمدن کو زر کی جھنکار سے کچلا جارہا ہے۔ جہاں حرف و دانش کو طاقت سے روندا جارہا ہے۔ جہاں ہر انسانی ضرورت سے مال بنانے والے مافیا موجود ہیں۔ اٹلی کے سمندروں کی نذر ہونے والی گجرات ،سیالکوٹ کی چمکتی جوانیوں کا سلسلہ کیا رک سکا ہے۔ چند روز شور شرابا رہا پھر وہی دھندا جاری ہے۔دنیا بھر میںجیتے جاگتے سانس لیتے ہر انسان کو سماج کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ہر جہت سے حفاظت کی جاتی ہے۔ یہاں ہر ذی روح کو پیسے کمانے کی مشین سمجھا جاتا ہے۔ ایک رکشے والے سے لیکر فضائی کمپنیوں کا بھی یہی عالم ہے۔ سب سے بڑا روپیہ۔ یہی لالچ ہمیں کنگال کررہا ہے۔ پاکستان نوجوانوں کیلئےپہلے سے زیادہ غیر محفوظ اور ناسازگار ہورہا ہے۔ ذہانت کا انخلا ہورہا ہے۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ ان کے ڈھیروں سوالات پر گفتگو کا دن۔ مت پوچھئے میرے دل کو کتنی تسکین ہوتی ہے۔ جب کوئی باپ کوئی ماں کہتی ہے کہ آپ کی اس یاددہانی سے ہمارے ہاں اتوار کا لنچ یا برنچ، خاندان کے اکٹھے ہونے کا سبب بن گیا ہے۔ کرغزستان سے جن خاندانوں کے بیٹے بیٹیاں ابھی واپس نہیں آسکے۔ ان کا اتوار کیا کوئی دوپہر بھی کیسے گزرتی ہو گی، اور یہ جو سینکڑوں نوجوان ہیں انہوں نے اتواروں کو اپنے والدین سے تو بات کی ہو گی۔ اس وقت محلے داروں نے، کونسلر نے یوسی کے چیئرمین نے، ایم پی اے، ایم این اے نے کوئی مشورہ دیا ہو گا۔ لیکن ہمارا یہ سماج بکھر چکا ہے۔ رشتے اکھڑ چکے ہیں مگر ہر زحمت میں ایک رحمت ہوتی ہے۔ 38سال کی خاندانی اور اداراتی خود غرضیوں اور نا اہلیوں نے جو افراتفری پیدا کی ہے اور ملک کی اکثریت کو جس طرح مفلسی میں دھکیلا ہے۔ میں کتنی روانی اور آسانی سے لکھ دیتا ہوں۔ اپنے فیس بک لائیو میں کہہ دیتا ہوں کہ 24 کروڑ میں سے دس کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ کبھی سوچتا نہیں ہوں کہ اتنی بڑی تعداد جیتے جاگتے بزرگ ،مائیں ،بہنیں، بچے کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی مالی حیثیت 3000روپے ماہانہ آمدنی بتائی جاتی ہے۔ آپ بھی بچوں والے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ 3 ہزار روپے میں چھ سات افراد کے دو وقت کا کھانا۔ دوسری ضروریات، بجلی گیس کے بل، بیماریوں کا علاج کیسے ممکن ہے۔
اب خاص طور پر اپریل 2022سے ریاست سنگین مسائل کے مقابلے میں جس طرح عاجز ثابت ہو رہی ہے۔ اداروں، افراد، کئی کئی بار وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والوں کی نا اہلی خود غرضی کا خمیازہ بھگتنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی اب سوچ ایک ہو رہی ہے۔ ایک طرف کپکپی بھی طاری ہوتی ہے کہ حساس ادارے برہمی کا ہدف بن رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ ادراک کہ اب خلقت شہر اپنی پامالی کا اصل سبب جان رہی ہے۔ تاریخ میں جب کوئی قوم اپنے مسائل کی وجوہ سے واقف ہوجاتی ہے تو اس کیلئے ان کے حل تک پہنچنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ وقت بہت قریب ہے کہ ہم میں سے جو بھی اس عمودی، افقی، معاشی، سماجی بحران کا ذمہ دار ہے۔ اور پھر بھی اپنے آپ کو عقل کل خیال کرتا ہے اس کی حرمت اب زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گی۔ سب سے زیادہ خطرناک بات ہے کہ سوشل میڈیا پر بڑی بے باکی سے اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ محبت ہمیں متحد نہیں کرتی ہے، نفرت ہمیں اکٹھا کر دیتی ہے۔ اس نفرت کا خوف اشرافیہ کو اکٹھا تو کرتا ہے لیکن وہ اندر سے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتے۔ جبکہ خاک نشیں سالہا سال کے نسل در نسل استحصال کے بعد دل سے یکجہتی کرتے ہیں۔ اب جو کچھ ہورہا ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے محاورہ ہے۔
”You ashed for it”۔ فارسی میں ہے۔’’اے بادصبا ایں ہمہ آوردہ تست۔‘‘ اور اُردو میں ہے۔ ’’یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے۔‘‘ الطاف حسین حالی بہت پہلے کہہ گئے تھے۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اقبال پکار رہے ہیں۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اسلاف صرف ہم کئی صدیاں پہلے تلاش نہ کریں۔ اسلاف وہ بھی تھے۔جن کے زمانے میں پی آئی اے نے سنگاپور، امارات کی ایئر لائنوں کو وجود دیا۔ وہ بھی جن کے دَور میں نوجوان کسی نظم کے تحت دوسرے ملکوں میں گئے۔ پاکستان پچاس ساٹھ کی دہائیوں میں دونوں بازوؤں میں ایک علمی، تہذیبی، صنعتی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ مقابلہ دوسری قوموں سے ہونا چاہئے لیکن ہم اپنے لوگوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں ان مجادلوں کی نذر ہورہی ہیں۔ ہماری اکثریت جاگ چکی ہے۔ احساس زیاں شدت سے جھنجھوڑ رہا ہے۔ اداروں کی خود احتسابی اس نفرت کی یکجہتی کو محبت کے اتحاد میں بدل سکتی ہے۔ اپنی انا سے باہر نکلیں۔ قوم کی اس بیداری کو ریاست کو آگے لے جانے کا فیصلہ کن موڑ بنائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ