میڈیا کے خلاف جو شکایات بلکہ جو غصہ ہے وہ بالکل بجا ہے۔ ہم جیسوں کو اپنے جرم اور گناہوں کا احساس بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے قبل بھی ہم اہل صحافت افراط و تفریط کے شکار تھے۔ ہمارے چینلز نے انفوٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ اور نیوز شوز کے فرق کو ختم کر دیا۔ مذہبی پروگراموں کو ہم نے تفریح کے پروگراموں کے ساتھ خلط ملط کیا۔ ریٹنگ کے چکر میں ٹاک شوز میں بدتمیزی کے کلچر کو ہم نے خوب فروغ دیا۔ بچوں کیلئے یا پھر سماجی تربیت کا کوئی پروگرام کسی چینل پر نظر نہیں آتا۔ ہماری وجہ سے سنجیدہ سیاستدان اور اہل دانش پس منظر میں چلے گئے اور چرب زبان، بدتمیز نووارد لوگ ٹاک شوز کی زینت بننے لگے۔ ہم نے خبر اور تجزیے کی تفریق بھی ختم کردی جو صحافتی دنیا میں گناہ عظیم سے کم نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے 2011سے باقی سیاستدانوں کو معتوب بنانے اور ایک کو ہیرو اور مسیحا ثابت کرنے کا جو عمل شروع کیا اس میں بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خوب استعمال ہوا۔ ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن خود ہمارے میڈیا کے اداروں کے اندر انصاف نہیں۔ ایڈیٹر کے ادارے کو عملا ختم کردیا گیا اور اس کی جگہ سیٹھ نے لے لی۔ بہت سارے لوگوں نے اپنے کالے دھن کو صاف کرنے کیلئے ٹی وی چینلز کھولے اور ہم یہ سب تماشہ دیکھتے رہے۔ اینکرز نامی مخلوق بادشاہ بن گئی۔ وہ لاکھوں میں تنخواہ لے رہے ہیں لیکن پرنٹ میڈیا سے وابستہ تجربہ کار صحافیوں اور رپورٹرز وغیرہ (جن کا کام سب سے مشکل ہے) کی حالت نہیں بدلی اور ان کی تنخواہیں ظالمانہ حد تک کم ہیں۔ جن اینکرز کو شہرت ملی وہ آپے سے باہر ہو گئے، کوئی جج، کوئی مفتی تو کوئی بادشاہ گر بننے کی کوشش کرتا رہا۔ شاید ان گناہوں کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے ہمارے اوپر سوشل میڈیا کا عذاب نازل کیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے 25کروڑ لوگوں میں سے ہر فرد صحافی بن گیا۔ چنانچہ جس کا جو جی میں آتا وہ سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا سیٹ اپ بنا دیے اور اپنے گماشتوں کو سیاسی یا صحافتی نقادوں یا مخالفین کی تذلیل پر لگا دیا۔ چنانچہ توہین انسانیت کے وہ وہ مناظر دیکھنے کو ملے کہ الامان الحفیظ۔ دوسری طرف فیک نیوز ایسا معمول بن گئی کہ صحیح خبر اب ڈھونڈنے سے ہی ملتی ہے۔ اوپر سے یوٹیوب چینلز کا دروازہ کھلا اور یہ پتہ چلا کہ اس کو چلانے کی صورت میں ڈالرز بھی ملتے ہیں۔ پھر یہ بھی پتہ چلا کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ بولتا ہے اور جس قدر زیادہ سنسنی پھیلاتا ہے، اس کا چینل اس قدر زیادہ دیکھا جاتا ہے اور اسے ڈالرز بھی زیادہ ملتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان یوٹیوبستان بن گیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے جرنلسٹ اور غیر جرنلسٹ کی تفریق بھی ختم ہو گئی۔ اب تو مولوی حضرات بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں اور نہ صرف فرقہ واریت سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہے بلکہ یہاں مناظرہ بازی بھی ہو رہی ہے اور ہر وقت یہ خطرہ موجود ہوتا ہے کہ کسی وقت کوئی بڑا فتنہ جنم نہ لے لے۔ زیادہ سے زیادہ محتاط الفاظ میں سوشل میڈیا کو پاکستان میں ان سوشل میڈیا کہا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ سے کسی شریف آدمی کی عزت محفوظ نہیں۔ کبھی جج نشانہ بنتا ہے، کبھی جرنلسٹ، کبھی جرنیل، کبھی سیاسی لیڈر لیکن ہر وقت کسی نہ کسی کی عزت لٹنے کا عمل زوروں پر ہوتا ہے اور سب بے بسی کے ساتھ تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان میں مہذب دنیا کی طرح ریگولرائزیشن نہیں اور ہتک عزت کا قانون غیر موثر ہے۔ پاکستانی عدالتوں سے چونکہ الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کے حملوں کے شکار لوگوں کو انصاف نہیں ملتا اس لئے صاحب وسائل لوگ برطانیہ کی عدالتوں میں کیسز لے جا کر انصاف حاصل کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ وہاں جا کر کیس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ کہاں جائیں؟۔ اس تناظر میں ہم جیسے طالب علم عرصہ دراز سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہتک عزت اور قذف کے قانون کو موثر بنایا جائے اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ ہمیں آزادی اظہار چاہئے لیکن ذمہ دارانہ آزادی اظہار چاہئے۔
مذکورہ تناظر میں پنجاب حکومت نے پہل کرتے ہوئے ہتک عزت کا قانون بنا دیا لیکن حسب عادت صحیح کام کو بھی غلط انداز میں اغلاط سے بھرپور کر دیا۔ پنجاب حکومت کے ساتھ صحافتی تنظیمیں تعاون کرنے کیلئے تیار تھیں لیکن اس نے کماحقہ مشاورت نہیں کی۔ جو مشاورت کی اس میں بھی صحافتی تنظیموں کی تجاویز شامل نہیں۔ یہ بل فیک نیوز کے خاتمے میں کم اور صحافیوں کی زباں بندی کیلئے زیادہ استعمال ہو گا۔ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ وفاق میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور یہ کام وفاقی سطح پر ہوتا تو بہتر ہوتا لیکن پنجاب حکومت نے نہ صرف پہل کی بلکہ غیر معمولی عجلت بھی دکھائی۔ جس کی وجہ سے اب صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کے خلاف میدان میں نکل آئیں۔ مکرر عرض ہے کہ ہم نہ صرف ریگولرائزیشن اور ہتک عزت کے قانون کو موثر بنانے کے خلاف نہیں بلکہ اس کے آرزو مند ہیں لیکن وہ کام سب کی مشاورت سے ایسا ہونا چاہئے کہ اسے آزادی اظہار پر قدغن کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ اس لئے پنجاب حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنا قانون واپس لے اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے وفاقی سطح پر فیک نیوز روکنے اور ہتک عزت کے قانون کو موثر بنانے کیلئے قانون سازی کی جائے ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ