(گزشتہ سے پیوستہ)
قائداعظم 7 اگست 1947کو دہلی سے پرواز کر کے کراچی پہنچے۔ قائداعظم کے سرکاری سوانح نگار HECTOR BOLITHO لکھتے ہیں کہ نوزائیدہ مملکت کی تفصیلات پر توجہ کے ساتھ ساتھ جناح اپنی زندگی کی عظیم ترین تقریر لکھ رہے تھے۔ وہ گھنٹوں اس تقریر کے مسودے پر کام کرتے رہے جو انہیں 11اگست کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کرنا تھی۔ محترم حامد خان نے بھی پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ کے صفحہ 60پر قائداعظم کے اس خطاب کو ان کی اہم ترین تقاریر میں شمار کیا ہے۔ مقام فخر ہے کہ بیسویں صدی میں سیکولرازم کی بہترین تشریح قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ سیکولرازم کے حامی پنڈت نہرو کی سیکولرازم کے بیان اور دفاع میں ایک بھی ایسی تقریر نہیں جسے قائد اعظم کی مذکورہ تقریر کے مقابل رکھا جا سکے۔ قائد کی یہ تقریر لنکن کے گیٹس برگ خطبے، چرچل کی خون پسینہ اور مشقت، مارٹن لوتھر کنگ کی میرا ایک خواب ہے اور جان ایف کینیڈی کی میں برلن کا شہری ہوں جیسی تقاریر سے مناسبت رکھتی ہے۔
پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ارکان جولائی 1946کے انتخابات میں متحدہ ہندوستان میں منتخب ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد مسلم لیگ کے 69ارکان اسمبلی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قرار پائے۔ چار غیر بنگالی ارکان لیاقت علی خان، شبیر احمد عثمانی،اشتیاق حسین قریشی اور ملک غلام محمد مشرقی بنگال کے کوٹے سے دستور ساز اسمبلی میں شامل کیے گئے۔ تاہم کل تعداد بڑھا کر 79کر دی گئی۔ دستور ساز اسمبلی کے اراکین کو پاکستان میں منفعت بخش عہدوں کے لیے بھی اہل قرار دیا گیا۔ سرکاری ملازمیں کا مقننہ میں شامل ہونا ایک خطرناک مثال تھی۔ قائداعظم نے اس ایوان دستور کی تشکیل اور قانون سازی کا فرض سونپا تھا۔ اگر دستور ساز اسمبلی کو تشکیل دستور کے بعد تحلیل ہو جانا تھا تو پاکستان میں حلقہ انتخاب سے محروم اہم سیاسی رہنمائوں کو دستور سازی میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی جو دولتانہ، ممدوٹ، شوکت حیات، سہروردی اور لیاقت علی کی طرح باہم دست و گریباں تھے۔ قائد اعظم نے مساوی شہریت کا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
…everyone of you, no matter to what community he belongs, … no matter what is his color, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges and obligations….
(آپ میں سے ہر ایک رنگ، ذات پات یا عقیدے سے قطع نظر اول و آخر اس ریاست کا شہری ہے اور اسے دیگر تمام شہریوں کے مساوی حقوق، مراعات اور فرائض حاصل ہیں۔)
یہ ایسی ریاست کی بہترین تشریح ہے جو کسی مذہبی امتیاز کے بغیر شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہو۔ ریاست کا کام کسی عقیدے کی بالادستی کے لیے کام کرنا نہیں بلکہ تمام شہریوں کو ایک جیسا تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قائد اعظم نے مزید فرمایا۔
We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State.
(ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ اپنا کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں اور مساوی شہری ہیں۔)
اور پھر بابائے قوم نے وہ تاریخی الفاظ ادا کیے جو پاکستان میں جمہوریت، رواداری اور ترقی کی بنیاد بن سکتے تھے۔
You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed, that has nothing to do with the business of the State…
(آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں، آپ کو پاکستان کی ریاست میں اپنی مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی پوری آزادی ہے۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، اس کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔)
تقریر کے آخری حصے میں بانی پاکستان نے وہ اصول بیان کیا جس پر علامہ شبیر احمد عثمانی اور ان کے پشتیبان انگاروں پر لوٹ گئے۔ قائداعظم نے فرمایا۔
In course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.
(وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ ایسا کسی مذہبی اصطلاح میں نہیں ہو گا کیونکہ مذہب ہر فرد کا نجی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اصطلاح میں، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے۔) قائد کی بصیرت کے مخالف کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ عزیزان من! عقیدے کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی سیکولرازم ہے۔ قائداعظم نے سیکولرازم کی اصطلاح استعمال نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ
Pakistan is not going to be a theocratic State – to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslims – Hindus, Christians, and Parsis – but they are all Pakistanis.
(پاکستان ملائی ریاست نہیں ہو گی جہاں مذہبی پیشوا کسی الوہی نصب العین کے تحت حکومت کریں۔ ہماری مملکت میں ہندو، مسیحی، پارسی اور بہت سے غیر مسلم موجود ہیں لیکن وہ سب پاکستانی ہیں)۔ قائداعظم نے سیکولرازم کا لفظ بھلے استعمال نہیں کیا لیکن نام لے کر تھیوکریسی کی نفی کی۔ یہی وہ نکتہ تھا جس پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے 3ستمبر 1947کو حرف دشنام دراز کیا لیکن عثمانی صاحب کا جواب آئندہ نشست میں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ