تہران ہوگر عالم’’ اسلام‘‘ کا جنیوا : تحریر حفیظ اللہ نیازی


ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ناگہانی موت دُنیا کو ہلا گئی ۔ موت حادثہ یا سازش؟ دو باتیں مستحکم، بات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے بہر صورت تحقیق و تفتیش ہوگی۔ دوسرا ہر ایسے حادثہ کی چھان بین، تحقیقات اور وجوہات کا تعین کرنا، سول ایوی ایشن کا پروٹوکول ہے۔ سازشی تھیوری میرے ایمان کا چھٹا جُزو ہے۔ فی زمانہ سازشی تھیوری کا ٹھٹھہ یا تمسخر اُڑانے والوں کو دلجمعی سے جاہل یا کوتاہ علم یا بدنیت سمجھتا ہوں۔

21ویں یا 20ویں صدی، کوئی لحظہ لمحہ علم، دانش و تحقیق سے اب اوجھل نہیں ہے۔ کتابیں، تحقیقی مقالے، اعترافی بیانات بکثرت موجود ہیں۔ ایران کی حد تک تو سازشیوں نے جال بچھا رکھا ہے۔ درحقیقت ایران ایک صدی سے زیادہ سازشوں کی زد میں ہے۔ 1905 میں علماء، دانشور، کسان، مزدور، تاجر، کاروباری غرض یہ کہ تمام طبقے اکٹھے ہوئے ، ایک حیران کن انقلاب لائے جو ’’آئینی انقلاب‘‘ کہلایا۔ آئینی انقلاب کے ذریعہ مجلس (پارلیمان) قائم ضرور ہوئی، اس کو پنپنے نہ دیا گیا ۔ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے رہے۔ 1905 کا انقلاب مسلمان دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا آئینی انقلاب جو عوام کا سیلِ رواں اپنی طاقت سے لایا۔ یہ ترکی کے ینگ ترک انقلاب سے بھی پہلے آیا۔ ایران کو پہلا آئین اسی انقلاب کی بدولت ملا۔ اگرچہ یہ انقلاب دیرپا ثابت نہ ہوا۔ اس وقت کے استعمار برطانیہ اور فرانس نے 1908میں مجلس شوریٰ (پارلیمان) بلڈنگ کو بم مار کر مسمار کر دیا۔ سازشوں کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا۔ 1908تا1921کی بدترین خانہ جنگی نے آئینی انقلاب اور ایران کو ہلکان رکھا۔ خانہ جنگی نے ایرانی معاشرت کو نہ صرف تباہ کیا، قوم افراط و تفریط کا شکار، طبقات اورقومیتوں میں بٹ گئی۔

دس سال کی مسلسل سازشوں سے برطانیہ فرانس نے من مانی جاری رکھی۔ بالآخر 1926 میں رضا شاہ پہلوی کو مطلق العنان حکمران بنا کر دم لیا۔ 1941 میں ایران عملاً برطانیہ روس کے قبضہ میں ،محمد رضا شاہ پہلوی ایک کٹھ پتلی حکمران تھا۔ دوسری طرف مصدق کو جو بعد میں وزیر اعظم بنا، بے بس بنا رکھا تھا۔ بالآخر 1953 میں محمد رضا شاہ کو ایران چھوڑنا پڑا۔ تاریخ میں بہت کچھ ثبت، دوسال بعد امریکہ اور برطانیہ نے سازشوں کے تانے بانوں سے مصدق حکومت ختم کی اور محمد رضا پہلوی کو دوبارہ مسند اقتدار سونپ دی۔ اگلے 25 سال محمد رضا کا طوطی بولتا تھا، طمطراق آن بان شان سے ایسے فائز رہا کہ اگلے ہزار سال نسل در نسل پہلوی حکومت دیکھ رہا تھا۔ اللہ کی اپنی سکیم، 1978کے اؤائل سے ایرانی نوجوانوں کی بے اطمینانی ان کو سڑکوں پر لے آئی۔ دیکھتے دیکھتے شہر گاؤں علماء، دانشور، تاجر، کاروباری، عام آدمی جگہ جگہ احتجاج ہنگاموں کا حصہ، چشم فلک نے تاریخ انسانی کے ایک عظیم انقلاب کا نظارہ کیا۔ ایک سال اندر، 16جنوری 1979، محمد رضا شاہ ایران چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اسلامی انقلاب اپنے قدم مضبوط کر چکا تھا۔ پلک جھپکتے افراتفری اور انارکی میں جکڑے ملک کا نظم و نسق ایسے سنبھالا، لگتا تھا دہائیوں کا تجربہ تھا۔ امریکہ اسرائیل مغربی ممالک مع بڑے اسلامی ممالک ایران کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے سربکف، کرشمہ ہی قائم و متحد رکھ سکتا تھا۔

اپریل 1979میں اقتدار سنبھالتے ہی ریفرنڈم کرا ڈالا۔ جمہوری اسلامی ایران مع آئین داغ بیل ڈال دی۔ مملکت آج اسلام اور جمہوریت کی تعریف پر من و عن پوری اُترتی ہے۔ اسلامی انقلاب کی قیادت بمطابق جمہوریت علماء کے پاس جبکہ سوسائٹی کا ہر طبقہ انقلاب کا ہر اوّل دستہ بن گیا۔ مت بھولیں کہ رضا شاہ پہلوی، محمد رضا، اتاترک، ظاہر شاہ سب مغربی اقدار اور معاشرت میں ملک ڈھال چُکے تھے۔ یہی وجہ کہ اسلامی انقلاب پہلوی خاندان کا مغربی معاشرت اور لبرل اندازِ فکر اپنانے کا فطری ردِعمل تھا۔ اوّل دن سے سازشوں کی گرفت میں، ساڑھے 4 دہائیوں سے ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال ہو چکا ہے۔

انقلاب کے پہلے سال 1979 میں وزیراعظم مہدی بازرگان شہید ہوئے۔ مجلس (پارلیمان) کی بلڈنگ دھماکہ سے اُڑادی گئی، ’’ 6درجن‘‘ سے زیادہ ممبران شہید ہو گئے۔ 1980سے عراق مع نام نہاد اسلامی ممالک کی فوج ظفر موج ایران پر10 سال چڑھائی رکھی۔ ہر لمحہ لحظہ مہلک اسلحہ، کیمیکل ہتھیار استعمال ہوئے۔ لاکھوں ایرانی جان سے گئے مگر ایک انچ زمین پر قبضہ نہ ہونے دیا۔ 40سال تک پوری دنیا نے باجماعت ایران کا معاشی مقاطعہ کئے رکھا۔ ایران میں نہ قحط آیا اور نہ سائنس، ٹیکنالوجی کی تحقیق میں کوئی کمی آنے دی۔ تاریخ انسانی کا واحد سخت جاں ملک اتنے ستم جھیلنے کے باوجود ابھی جاں باقی بلکہ قائم دائم، کفار کے دل میں کھٹکتا ہے کانٹے کی طرح۔ نظامِ حکومت ا+یسا مضبوط و مربوط، حالتِ جنگ، امن ہر حال میں بھی انتخابات، انتقال اقتدار آئین کےمطابق بروقت جاری و ساری ہے۔ اگست 1979 میں ’’یوم قدس‘‘ منانے کا سرکاری اعلان، قائد انقلاب امام خمینیؒ نے بقلم خود کیا۔ کوئی اور ملک جو بمشکل کھڑا ہونے کے قابل، بیت المقدس کو صہیونیوں کے قبضہ سے چھڑوانے کا ایسا عزم بتائے۔ ایران کو اندازہ تھا کہ فلسطینیوں کی روایتی قیادت بین الاقوامی قوتوں کی پروردہ اور اُنکا مہرہ ہے۔ چنانچہ1987 ءمیں اخوان المسلمین کی مدد سےحماس وجود میں آئی۔ ایران کی وجہ سے مسئلہ فلسطین آج دنیا کی نظروں میں رچ بس چکا ہے۔ سو فیصد کریڈٹ حماس، اس سے بڑھ کر ایران کو۔ آج دنیا بوجوہ مسئلہ فلسطین، ایک لاینحل بحران میں پھنس چکی ہے۔

ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت سے دشمنان اسلام نے اُمیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابراہیم رئیسی غیر معمولی ذہانت، صلاحیتوں کے مالک تھے۔ 16 سال کی عمر ہی سے عالم دین کے سارے مراحل طے کر لئے۔ انقلاب کیلئے جوانی وقف رکھی۔ 20 سال کی عمر میں روحانی رہنماؤں کی نظروں میں جچ چکے تھے۔ اُنکی موت سے دو پوزیشنیں فوری طور پر پُر کرنا مشکل ہو گا۔ صدر کی جگہ جہاں وہ دوسری دفعہ بھی باآسانی منتخب ہو جاتے، سب سے بڑھ کر علی حسینی خامنہ ای کے بعد وہ سپریم لیڈر کے طور پر دیکھے جا رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ پاسداران انقلاب اور فوج کے درمیان کسی حد تک معاصرانہ چشمک موجود ہے۔ مت بھولیں کہ آج کی تاریخ میں ایران کے پالیسی ادارے بہت مضبوط ہو چکے ہیں، پالیسی کا تسلسل موجود رہے گا۔ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا عزم، حماس کی کھلے عام مالی و جنگی مدد، ایران کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں صفِ اوّل کی قوم بنانا، اسلامی ممالک سے بہترین تعلقات کا قیام خلیجی ممالک کیساتھ بہترین تعلقات کا آغاز، روس چین ترکی کیساتھ دفاعی و ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے تزویراتی و اقتصادی معاہدے وغیرہ سب کچھ اداروں کے رحم وکرم پر ہے۔ ایرانی پالیسیاں نہ کسی صدر اور نہ کسی جرنیل کی محتاج ہیں۔ رئیسی کی موت ناقابل تلافی، بہت بڑا نقصان ضرور، ایران ایسے صدموں کا عادی ہے۔ ایسی صورتحال سے نبردآزمائی ایران کی خصلت عادت، خُو بن چکی ہے۔ ایران کی کامیابی کا سفر رُکنے کا نہیں جبکہ اُمتِ مسلمہ کی واحد اُمید ایران ہی تو ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ