ذمہ دارانہ صحافت کو اصل خطرہ کس سے؟ : تحریر انصار عباسی


چلیں مان لیتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا میڈیا کے متعلق بنایا گیا قانون کالا ہے اور اسی بنیاد پر صحافتی تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں، جھوٹ بہتان تراشی اور فیک نیوز ہمارے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا معمول بن چکا۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جھوٹے الزامات لگانا، کسی کی پگڑی اچھالنا، دوسروں پر غداری اور گستاخی تک کے سنگین الزامات لگانا، دوسروں کی زندگیوں تک کو خطرہ میں ڈالنا کیا یہ ہم نہیں کرتے رہے۔ایساکرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر فتنہ انگیزی کرنے والے کتنوں کو سزائیں دی گئیں؟ کس طرح ٹی وی چینلزنے دوسرے ٹی وی چینلز اور صحافیوں کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر مہمات چلائیں، صحافیوں نے صحافیوں پر غداری کے فتوے لگائے، گستاخی تک کے الزامات لگائے لیکن کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے کہ برطانیہ میں انہی الزامات پر ہمارے ہی ٹی وی چینلز اور صحافیوں پر جرمانے عائد کیے گئے جس پر نہ کسی نے آزادی رائے کی بات کی اور نہ ہی آزادی صحافت کیلئے خطرہ محسوس کیا۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اُس نے تو تمام حدیں پار کردیں۔کسی کو گالی دینا ہی اس کی آزادی ہے؟ کسی پر سنگین سے سنگین الزام لگایا جائے تو اس پر بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں؟جو دل میں آئے کہہ دوچاہے کسی کے بھی متعلق ہو۔ جھوٹی اطلاعات یعنی فیک نیوز بنا بنا کر پھیلائی جاتی ہیں، ٹرولنگ اور بہتان تراشی کی بنیاد پر ٹرینڈز چلانا کھیل بن چکاہے۔گستاخانہ مواد بھی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، ملک دشمنی کی بھی حدیں پار کی جاتی ہیں لیکن جب کسی کے خلاف حکومت ایکشن لیتی ہے تو شور مچ جاتا ہے کہ آزادی رائے پر حملہ ہو گیا۔ صحافتی تنظیموں سے میرا سوال ہے کہ جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق میں نے اوپر لکھا کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا یاہوتا رہا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر صحافتی تنظیموں نے جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط ہو رہا ہے اور جس کا شکار میڈیا کے افراد خود بھی ہیں، اسے روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟ جب ہم ذمہ دارانہ صحافت کو پروموٹ کرنے کیلئے خود اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے، جب ہم سوشل میڈیا یا میڈیا کو استعمال کر کے بہتان تراشی اور فتنہ انگیزی کرنے والوں کے احتساب کی بجائے اگر خودقانون کی گرفت میں آتے ہیں تو ہم اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت کا مقدمہ بنا کر پیش کریں گے تو پھر جو کچھ غلط ہو رہا ہے وہ درست کیسے ہو گا۔ جب ہم اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے تو پھر حکومتوں کو موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق قوانین بنا دیں۔ اور پھر جب کوئی بھی حکومت میڈیا سے متعلق کوئی قانون بناتی ہے یا بنانے پر غور کرتی ہے تو اُسے آزادی صحافت اور آزادی رائے پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کا تو یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو حکومت میں ہو ں تووہ میڈیا کے متعلق قانون میں تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ وہی جب اپوزیشن میں ہوں تو میڈیا کے ساتھ یکجہتی کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت میڈیا پر قدغنیں لگانا چاہ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند سال پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بنائے جانے والے میڈیا سے متعلق قانون کے حوالے سے جو کہا تھا اُس کی وڈیو ٹی وی چینلز پر چلائی گئی۔کل جو وہ کہہ رہی تھیں آج وہ اُس کا الٹ کر رہی ہیں جبکہ تحریک انصاف اب اپوزیشن میں ہونے کی بنیاد پر میڈیا تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔ سیاست کے اس کھیل پر اعتراض اپنی جگہ لیکن میری صحافتی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹ، فیک نیوز، فتنہ انگیزی وغیرہ کے خلاف نہ صرف اپنی آواز اُٹھائیں بلکہ موجودہ قوانین میں اگر کوئی کمی کسر ہے تو اُسے دور کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کو جو خطرہ فیک نیوز اور فتنہ پھیلانے والوں کی طرف سے ہے اُس کے آگے بند باندھا جا سکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ