خنجراب سے دالبندین، ایک لہر : تحریر محمود شام


نیا پاکستان تو کئی بار پرانا ہوچکا۔

اب تو اکیسویں صدی کے پاکستان کیلئے تحریک چل رہی ہے۔ اس کے قائد اکیسویں صدی کی پیدائشیں ہی ہیں۔ ہم بیسویں صدی کی باقیات کو بہت خوشی ہے کہ ہمارے 18 سال کے ہم وطنوں نے حقیقی آزادی کے پرچم اٹھالیے ہیں۔ وہ ہماری طرح مصلحتوں کے اسیر نہیں ہیں۔ منہ دیکھے کی عزت نہیں کرتے۔ جو لائق تعظیم ہے، اس کی حد درجہ تکریم کرتے ہیں۔ جس کے عیب ان کی نگاہوں کے سامنے ہویدا ہیں ان کو وہ رسمی سلام بھی نہیں کرتے۔ اب جدوجہد اس پاکستان کے قیام کیلئے ہے، جس کیلئے وکیلوں، طالب علموں، متوسط طبقے کے عالموں نے اپنی راتیں جاگتے گزاری۔

میں کراچی قدیم میں گزدر آباد میں سلاوٹ برادری کے ایک ہال میں میر محمد بلوچ پروگریسیو اکادمی لائبریری سے کتابوں کے اجرا کے موقع پر ایک محفل کی صدارت کررہا ہوں۔ میرے سامنے بڑی تعداد میں تینوں نسلوں کے پاکستانی موجود ہیں۔ نوجوان، ادھیڑ عمر اور میرے ہم عمر۔ شلوار قمیصوں،جینز میں ملبوس سب کے چہروں پر ایک انبساط۔ ساحر، فیض، حبیب جالب کے عشاق، اپنی تقریروں میں انکے اشعار سناتے ہوئے لالہ محمد حسین کتاب اور دانش کی طرف ترغیب کے قائد۔ عین بازار کے بیچ، ایک دکان جہاں سے کروڑوں کمائے جاسکتے ہیں،وہاں لائبریری ۔ ایک بڑی میز پر آج کے اخبار بکھرے ہوئے ہیں۔ اب سرکاری لائبریریوں میں یہ منظر دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔ میری معروضات سب بہت غور سے سن رہے ہیں۔ کسی کی نظر اسمارٹ فون پر نہیں ۔ آرٹس کونسل، پریس کلب اور دوسرے مقامات آہ و فغاں کے شرکاء کے برعکس حرف و دانش میں ان کا انہماک سرگوشی کررہا ہے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے ۔ ملکی بین الاقوامی حالات پر تبادلۂ خیال کے لمحات۔ سچ جانیے میں اس ہزاریے کی پیدائشوں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں، اپنے کام سے کام، نوابوں، جاگیرداروں، سرداروں، بادشاہوں کے مصاحبین کی بلاوجہ مدح خوانی، نہ جذباتیت۔ ہم ابھی تک ان قباحتوں میں مبتلا ہیں۔ ہم نے اپنے تحت الشعور میں کبھی جھانکا نہیں۔ وہاں ہمارے وسائل پیداوار پر قبضہ کرنے والی اس اشرافیہ کے خلاف برہمی کا لاوا پک رہا ہے۔ ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ ہماری یہ خوشامدی طبیعت ہماری اولادوں کو منتقل نہیں ہورہی ۔ ہم شعوری طور پر نہ سہی لاشعوری طور پر بیدار ہیں۔ ہمارے ضمیر پر سمجھوتے کے جو داغ لگ چکے ہیں۔ ہم اندر سے نہیں چاہتے کہ ہماری اولادیں ایسے داغدار ضمیر لے کر درباروں میں جبہ سائی کریں۔

واہگہ سے گوادر تک ایک ہمہ گیر کشمکش جاری ہے۔ آسمان کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ غاصب رُسوا ہو رہے ہیں۔ خود غرض بے نقاب ہو رہے ہیں۔ ایک اصل اور سچا سماج وجود میں آ رہا ہے۔ بے زبانوں کو زبان مل رہی ہے۔ سارے بڑے عہدوں، کرسیوں، اداروں، وسائل پیداوار پر سامراجی زر پرست گماشتے براجمان ہیں۔ لیکن ان کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ 1958، 1977، 1999کی طرح بے دریغ فیصلے نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کے قدم ہچکچاتے ہیں۔ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔ مرکزی میڈیا ان کا ہے۔ لیکن وہ اپنا پیغام نشر نہیں کر پاتے۔

میں حالات کو منطق اور تاریخ کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ سماج پگھل رہا ہے۔ گراں خواب پنجابی سنبھل رہے ہیں۔ بلوچ کی برسوں پرانی حقوق بیداری کو اب دوسرے لسانی حلقے بھی تسلیم کر رہے ہیں۔ سندھ میں شاہ کے سر شہباز قلندر کا وجدان، جنوبی پنجاب کے ذہنوں کو ایک نیا جنون عطا کر رہا ہے۔ سنگلاخ اور سرسبز پہاڑوں میں رشتے استوار ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی تمنّائیں سارے پاکستان کی امنگ بن رہی ہیں۔ وادیٔ نیلم سے درۂ خیبر، خنجراب سے دالبندین ایک سوچ ایک لہر۔ آنکھوں میں ایک سے خواب ہیں۔

دباؤ میں سب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی استطاعت اپنے پسندیدہ بندوں کو دیتا ہے، انسانیت کا وقار بلند کرنے والے عارضی انتظامات نہیں کرتے۔ وہ آئی ایم ایف کو آخری امید نہیں سمجھتے۔ ان کے سامنے آتی صدیاں ہوتی ہیں۔ وہ گزشتہ صدیوں میں اپنے اپنے شہر، اپنے علاقے کی پرچھائیاں دیکھتے ہیں۔ اپنی زمینوں کی تخلیقی اہلیت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا، جدید علوم، نئی ڈیجیٹل تحقیقات انہیں اپنے اپنے خطّے کے امکانات سے با خبر کرتے ہیں۔ وہ اپنے آئندہ دس پندرہ سال کا روڈ میپ بناتے ہیں۔ نئے نئے آلات۔ رابطے کی مشینیں نہیں جانتیں کہ طاقت وری کیا ہوتی ہے۔ دن میں جو خوشامدیں کرتے ہیں۔ قانون وقت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہاتھی کے پاؤں کو دیکھتے ہیں۔ شاہین کی آنکھ میں نہیں جھانکتے۔ وہ رات کو سونے سے پہلے اپنے ضمیر کی یلغار کا سامنا کرتے ہیں۔ پھر خواب آور دوا استعمال کرکے اپنی بیداری کو اونگھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

جو زندوں میں ہیں وہ اپنی دنیا آپ پیدا کر رہے ہیں، مشرق و مغرب میں اب ایک نیا انداز ہے، اگر چمگادڑ کی آنکھ روز روشن کو نہ دیکھ پائے تو اس میں سورج کا تو کوئی قصور نہیں۔ میرے شعور نے آنکھ کھولی تو شورش کاشمیری کی گھن گرج سنی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خطابت نے سرور بخشا، فیض نے بہار کی نوید دی، احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ حالات سے پنجہ آزما ہو، حبیب جالب نے غاصب کے دستور کو ماننے سے انکار کا حکم دیا، ابراہیم جلیس نے چالیس کروڑ بھکاریوں کا احساس دلایا۔ شوکت صدیقی نے خدا کی بستی میں انسانوں کی جدو جہد سے روشناس کروایا۔ میر خلیل الرحمن نے ذروں کو آفتاب بنتے دکھایا۔ بشیر احمد ارشد نے آمروں کو ہلا دینے والے اداریے لکھنا سکھایا۔ صفدر میر سے ثقافت سے حمیت کشید کرنا سیکھا۔ آئی اے رحمن کے انکسار میں افتخار دیکھا،وارث میر نے ڈکٹیٹر شپ کو للکارنے کا سلیقہ دیا، گل خان نصیر نے رومان اور انقلاب کا امتزاج پیش کیا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان صحبتوں میں چراغوں کا دھواں دیکھتا رہا ہوں۔ شیخ ایاز، شاہ کے سروں میں غیرت مندی کا تصور دیتے رہے ہیں۔ سراج الحق میمن کی اختصار پسندی بہت کچھ یاد دلاتی تھی۔ فارغ بخاری کا لہجہ بھی یاد آرہا ہے۔ میں ان سب کا مقروض ہوں۔ اس قرض کی ادائیگی میں آئی ایم ایف مدد نہیں کرسکتا یہ بوجھ سندھ کے ہاریوں، پنجاب کے کسانوں، کے پی کے کے غیرت مندوں، بلوچستان کے محنت کشوں، آزاد کشمیر کے حریت پسندوں گلگت بلتستان کے طالب علموں کی مدد سے ہی اتر سکتا ہے۔ گلی کوچے جاگ رہے ہیں۔ شہر خود مختار ہو رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ