اُس نے وعدہ کیا ہے آنے کا : تحریر تنویر قیصر شاہد


شاعرِ طرحدارجوش ملیح آبادی نے کہا تھا:

اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا

رنگ دیکھو غریب خانے کا
کہا جارہا تھا کہ سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان پاکستان تشریف لایا چاہتے ہیں۔ ہماری شہباز سرکار کی جانب سے اِس بارے بلند آہنگ اعلانات بھی کیے گئے۔ وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم جناب اسحاق ڈار بھی ایسا ہی اعلان کر چکے ہیں۔ خیال تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان صاحب مئی کے وسط میں پاکستان کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمائیں گے ۔ اس لیے ہمارے غریب خانے یعنی پاکستان میں سرکاری خوشیوں کے نئے رنگ بھی دیکھے جا رہے تھے۔

اب مگر کہا جارہا ہے کہ محترم المقام سعودی ولی عہد کی پاکستان تشریف آوری بارے کوئی حتمی تاریخ طے نہیں ہو پا رہی ۔ اِس پر پاکستان کے معروف دانشور، مصنف اور سابق سفارتکار، جناب حسین حقانی، نے اپنے X پیغام میں یوں لکھا: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی تاریخیں ابھی طے نہیں ہوئی تھیں کہ مجوزہ تاریخیں پاکستانی میڈیا میں رپورٹ ہو گئیں ۔اب وہ نہیں آ رہے تو شرمندگی ہو رہی ہے۔ بہتر نہ ہوتا کہ دورے کی تجویز حتمی طور پر طے ہونے سے پہلے رپورٹ نہ کی جاتی؟جو دورہ طے ہی نہیں ہوا، وہ منسوخ کیسے ہو گیا؟۔

ابھی تک یہ بات بھی سامنے نہیں آ سکی ہے کہ سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد بارے سعودی عرب کی جانب سے کوئی باقاعدہ اعلان ہوا تھا یا نہیں ؟

شہزادہ محمد بن سلمان مشرقِ وسطی کی انتہائی طاقتور، متحرک اورموثر شخصیت ہیں۔ان کے دم سے عالمِ اسلام کے کئی دل دھڑکتے ہیں۔ وہ بانی پی ٹی آئی کے دور میں بھی پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ اب اگر وہ جناب شہباز شریف کے دوسرے دور میں پاکستان کو اپنی آمد سے شرف بخشتے ہیں تو بوجوہ یہ پاکستان کی خوش بختی ہوگی۔

دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہو کر شہباز شریف، سعودی عرب میں، سعودی ولی عہد سے ملاقات کر چکے ہیں۔ اِس دوران سعودی وزیر خارجہ، شہزادہ فیصل بن فرحان، نے بھی پاکستان کا دورہ کیا ہے ۔ ان کی وطن واپسی کے بعد ممتاز سعودی بزنس کمیونٹی کے ایک 20رکنی وفد نے ابھی حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا ہے ۔ اِس دورے میں پاکستان اور سعودیہ میں کئی ایم او یوز پر دستخط بھی ہوئے ہیں ۔ یعنی شروعات تو بہترین ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ آج پاکستان کو بوجوہ سعودی عرب کی جانب سے اعانت و دستگیری کی جتنی ضرورت ہے، شائد اِس سے قبل کبھی نہیں تھی ۔ پاکستان نے سعودیہ سے ایک بار پھر بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں ۔ اِسی لیے تو وزیراعظم شہباز شریف نے مئی 2024کے دوسرے ہفتے العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے یوں کہا ہے :ہم سعودی عرب کی قیادت و اعانت سے معاشی انقلاب برپا کر سکتے ہیں ۔

معاشی انقلاب برپا کرنے کی نیت اور توقع مستحسن ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب کیسے اور کیونکر پاکستان کی مدد کر سکتا ہے ؟ اور خاص طور پر یہ سوال کہ پاکستان کے موجودہ پر شور حالات میں ولی عہد صاحب پاکستان تشریف لائیں گے بھی یا نہیں ؟

شہباز شریف کی حکومت کو معرضِ عمل میں آئے ابھی تین ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے ہیں اور ابھی سے ان کی حکومت کے خلاف کئی طوفان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ ایسے دگرگوں اور غیر مستحکم سیاسی حالات میں کیا ایم بی ایس صاحب کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ پاکستان تشریف لائیں اور ہمارے غریب خانے کو ایک بار پھر رونق بخشیں؟

ذرا پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات کا سنجیدگی اور فہمیدگی سے جائزہ لیں اور خود سے استفسار کیجئے کہ ایسے حالات میں کیا سعودی ولی عہد پاکستان آنے کا رسک لے سکتے ہیں؟ہمارے مجموعی چال چلن تو ایسے ہیں جو سعودی ولی عہد کو بددل اور مایوس کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے ایک لیڈر اور ایم این اے ، شیر افضل مروت ،کا یہ بے بنیاد الزام کہ ہماری حکومت کے خاتمے میں سعودی عرب کا بھی ہاتھ تھا۔

پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی نے اپنے ایم این اے کے اِس بیہودہ الزام کی سختی سے تردید بھی کی اور ناراضی کا اظہار بھی کیا ۔مروت کو اِس بیان کی بنیاد پر کئی سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تہمت سے سعودی عرب کا دل تو دکھا ہی ہوگا ، پورا پاکستان بھی ناراض ہوا ہے ۔ سعودیہ نے ہنوز آن دی ریکارڈ اپنی ناراضی کا اظہار تو نہیں کیا ہے لیکن ہم سعودیہ کی خاموشی سمجھ سکتے ہیں ۔

جب پاکستان میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سر پھٹول ہو رہی ہو، سیاستدانوں کے باہم دست و گریبان ہونے کے مناظر ہر جانب چھائے ہوں تو ایسے آتش فشانی حالات میں بھلا سعودی ولی عہد کیونکر پاکستان کا دورہ کر سکیں گے؟ آزاد کشمیر میں بوجوہ مشتعل عوام نے نیا رنگ دکھایا ہے۔ وہاں کے احتجاجی عوام کے ہاتھوں دوپولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں اور کئی زخمی۔ اور کہا جارہا ہے کہ مہنگی بجلی اور کمر شکن مہنگائی کی بنیاد پر معرضِ عمل میں آنے والے یہ احتجاجات پاکستان تک بھی پھیل سکتے ہیں۔

ایسے میں انوارالحق کاکڑ کی نگران حکومت کی جانب سے وہ رپورٹ بھی سامنے آ گئی ہے جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ 9مئی کو دراصل پی ٹی آئی کے حق میں فوج کے اندر سے بغاوت کو ہوا دینے کی کوشش تھی ۔ اِس رپورٹ نے عجب سراسیمگی پیدا کر رکھی ہے۔ یہ پریشان کن رپورٹ ایسے ایام میں منظر عام پر آئی ہے جب چند دن پہلے ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی بارے سبھی کونئے سرے سے سوچنے پر آمادہ کیا ہے۔

مذکورہ بالا پریس کانفرنس کے بعد اداروں اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک نئی کشمکش اور رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کسی سے بھی ، اپنے سنگین اقدامات کے پس منظر میں، معذرت کرنے پر ہر گز تیار نظر نہیں آ رہی۔ اداروں کے بارے ان کی زبان مزید قابلِ اعتراض اور سخت ہو چکی ہے ۔ پی ٹی آئی زمین نہیں، کسی اور سیارے پر بیٹھی نظر آ رہی ہے۔

خیبر پختونخوا کے نئے گورنر ( فیصل کریم کنڈی) اور منتخب وزیر اعلی ( علی امین گنڈا پور) ایک دوسرے کے خلاف جو سخت لب و لہجہ اختیار کررہے ہیں ، اِس نے ہماری سیاسی دنیا کو مزید آلودہ اورآتشیں بنا دیا ہے ۔ پاکستان کی6سیاسی جماعتوں کا اتحاد (تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان)ملک بھر میں حکومت کے خلاف رزم آرا ہونے کے لیے تیاریاں کررہا ہے ۔ پاکستان کی دونوں بڑی مذہبی جماعتیں ( جماعتِ اسلامی اور جے یو آئی ایف) شہباز حکومت کے خلاف میدان سجا چکی ہیں۔

مخصوص نشستوں بارے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد قومی و پنجاب اسمبلی میں طاقت کا جو توازن بگڑنے جارہا ہے، اِس سے حکومت کی چولیں ہل رہی ہیں ۔نون لیگی حکومت پر، عددی اعتبار سے، ایک نئی تلوار لٹکنے لگی ہے ۔ مزیدقرض دینے کے لیے آئی ایم ایف پاکستانی عوام کے خلاف حکومت کو جن قیامت خیز شرائط کے لاگو کرنے پر اصرار کررہا ہے، عوام اور حکومت کے درمیان ناراضی اور غصے کی نئی لہریں پیدا ہونے کے اندیشے ہیں ۔ کیا ایسے حالات میں سعودی ولی عہد پاکستان تشریف لائیں گے؟

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس