وکلا نے آج کل ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی ہوئی ہے۔کہہ سکتے ہیں کہ پھر ہڑتالوں کا سیزن چل رہا ہے۔ کچھ دن چھٹیاں کرتے ہیں پھر وکلا ہڑتال کرنے لگ جاتے ہیں۔ انصاف کتنے دن ملتا ہے؟ بہرحال ملک بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کا احوال سائلین ہی بیان کر سکتے ہیں۔ حالیہ تنازعہ لاہور میں عدالتوں کی منتقلی سے شروع ہوا ہے۔
لاہور میں کچھ عدالتوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہے۔ وکلا برادری کا موقف ہے کہ ان سے پوچھے بغیر ایئرپورٹس کو دوسری جگہ منتقل کیوں کیاگیا۔ عدالتوں کی منتقلی سے پہلے ان سے اجازت نہیں لی گئی۔ لہذا وہ اس منتقلی کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ اور جب تک منتقلی کا یہ نوٹیفکیشن واپس نہیں لیا جاتا تب تک عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وکلا برادری کے تمام گروپس اس ہڑتال میں اکٹھے ہیں۔ حامد خان اور عاصمہ جہانگیر گروپ سمیت تمام نے اس ہڑتال کی حمایت کی ہے۔ اس کے ساتھ جہاں ملک بھر میں عدالتوں میں ہڑتال کی کال دی گئی تھی وہاں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی عدالت کا وکلا کی جانب سے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔
یعنی جس دن ہڑتال نہیں بھی ہو گی تب بھی کوئی وکیل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی عدالت میں پیش نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے خلاف ملک بھر کی تمام وکلا تنظیموں نے سپریم جیوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
چیف جسٹس اور بار کا تنازعہ ماضی میں بھی ہوا ہے۔ بلکہ تنازعہ نے اس سے بھی زیادہ شدت اختیار کی ہے۔ ویسے تو ہم کہتے ہیں کہ بار اور بنچ نظام انصاف کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ بار اور بنچ کے درمیان توازن کا پلڑا بار کی طرف زیادہ جھکا لگتا ہے جس میں اب بنچ کی حیثیت ایک مظلوم کی رہ گئی ہے اور بار طاقتور بن گئی ہے۔ بنچ کو بار دیوار سے لگا رہی ہے۔ یہاں تک کہ بنچ کو بارہا گالیاں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ بار جب چاہے بنچ کو تالہ لگا کر بند کر دیتا ہے۔
بار جب چاہے بنچ کا گھیرا کر لیتا ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ بے شمار حقوق اور اختیار ہونے کے باوجود بنچ بار سے ڈرتا ہی رہتا ہے۔ بنچ کی تو بار کے سامنے آواز بھی نہیں نکلتی۔ بنچ بار سے اب اپنی جائز بات منوانے کی پوزیشن سے نیچے آتا نظر آ رہا ہے۔ بار کے سامنے بنچ کی مظلومیت نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ اس پر اب رحم بھی آتا ہے۔ ویسے تو بنچ نے پورے حکومت کو پریشان کیا ہوا ہے۔ لیکن بار نظام عدل کو پریشان کر رہا ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس بار اسلام آباد ہائی کورٹ میں جو وکلا ہڑتال کے باعث عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے ان کے کیس خارج کر دیے گئے ہیں۔ ایسی ہی اطلاعات چند اور عدالتوں سے بھی آئی ہیں۔ لیکن زیادہ تر عدالتوں نے ہڑتال والے دن کیسز میں تاریخیں ہی ڈال دی ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ابھی کوئی پالیسی بیان سامنے نہیں آیا کہ انھوں نے وکلا کی جانب سے ان کی عدالت کے مکمل بائیکاٹ کے بعد کیا پالیسی بنائی ہے۔ کیا وہ کیسز میں تاریخیں ڈالتے رہیں گے یا کیسز کو خارج کرتے جائیں گے۔ ان کی جانب سے معاملہ پر ابھی مکمل خاموشی ہے۔
میں ذاتی طور پر وکلا کی ہڑتال کو کسی بھی طرح جائز نہیں سمجھتا۔ وکلا نے اپنے سائلین سے کیس لڑنے کی فیس لی ہوتی ہے۔ وہ سائل کی جانب سے فیس لے کر مقررہ تاریخ پر عدالت میں پیش ہونے کے پابند ہیں۔
یہ وکیل اور سائل کے درمیان معاہدہ ہے۔ جس کی رو سے وکیل عدالت میں سائل کی جگہ پیش ہونے کی فیس لیتے ہیں۔ جب وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو وہ سائل سے کیے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان کا اپنا ذاتی کوئی کیس نہیں ہوتا، وہ یہ کام کوئی مفت بھی نہیں کر رہے ہوتے۔ بھاری فیسوں کے عوض عدالت میں پیش ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کی جانب سے عدالتوں کا بائیکاٹ کرنا قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے درست نہیں ہے۔ وہ سائل کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔
اسی طرح جب ان کے پیش نہ ہونے کے بعد عدالت سے کیس خارج ہو جاتا ہے تو بھی وکیل کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ سائل کا نقصان ہے، کیس تو سائل کا ہے وکیل کا ذاتی نہیں ہے۔ آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ وکیل کیس میں پیش ہوا یا نہیں یہ سائل اور وکیل کا معاملہ ہے۔ عدالت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر وکیل پیش نہیں ہو رہا تو یہ سائل کا مسئلہ ہے۔ سائل نیا وکیل کر سکتا ہے خود پیش ہو سکتا ہے۔
لیکن عدالت کا یہ مسئلہ نہیں کہ وکیل پیش نہیں ہوا۔ سائل کو ہی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وکیل پیش ہوا کہ نہیں۔ قانونی طور پر یہ بات درست ہے۔ لیکن حقیقت سب جانتے ہیں۔ اگرسائل نے ہی عدالت یا وکیل کا پہرہ دینا ہے تو وکیل کرنے کا کیا فائدہ ۔ جب کیس میں وکیل کا وکالت نامہ موجود ہے تو وکیل پیش ہونے کا ذمے دار ہے۔
ا ب سوال یہ ہے کہ عدالت میں پیش نہ ہونے پر کارروائی وکیل کے خلاف ہونی چاہیے یا کیس خارج ہونا چاہیے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ عدالت کے پاس دیکھا جائے تو وکیل کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیںہے۔ وکیل اور سائل کا معاہدہ اپنی جگہ لیکن عدالت میں وکیل ہونے کے باوجود کیس سائل کا ہی ہے ۔ کیس خارج ہوتا ہے کیس میں ریلیف ملتا ہے یا نہیں ملتا ہے ۔ ہار جیت سائل کی ہے۔ اس لیے اگر عدالتیں ہڑتال کے باعث کیس خارج کرنا شروع کر دیں تو یہ سائلین کے لیے ہی مشکل ہے وکیل کا اتنا نقصان نہیں ہے۔
اس لیے میرے لیے سوال اہم ہے کہ وکلا کی ہڑتال قانونی طور پر کیسے جائز ہے اور ہڑتال کا نقصان کے سائل کے کھانے میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے۔ ویسے تو اصولی فیصلہ یہی ہونا چاہیے کہ وکیل کسی بھی صورت ہڑتال نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کوئی احتجاج بھی کرنا ہے تو عدالت کے اوقات کے سے پہلے یا بعد کر سکتے ہیں۔
عدالت کے وقت کے دوران میں عدالتوں کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے۔ دن میں عدالتوں میں پیش ہوں اور پھر جتنا دل چاہے احتجاج کریں۔ جلسہ کریں جلوس کریں۔ ریلی نکالیں۔ چیف جسٹس کے گھر کے باہر دھرنا دیں لیکن ہڑتال نہیں کر سکتے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جنگ بھی لگ جائے تو عدالتوں نے کام جاری رکھنا ہے۔ وکیلوں نے عدالتوں میں پیش ہونا ہے۔ یہاں کسی کو کھانسی بھی آجائے تو ہڑتال کی کال دے دی جاتی ہے۔
عدالت کہاں لگنی ہے یہ وکلا کا معاملہ کیسے ہو گیا؟ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے۔ ملک میں کہاں کہاں عدالتیں بنائی جائیں یہ بات بھی وکلا سے پوچھنی پڑے گی۔ ویسے تو یہ کام حکومت کا ہونا چاہیے۔ عدالت کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا کیا ہڑتال کے لیے جائز جواز ہے۔ میں نہیں سمجھتا۔ کیا اس سے وکلا کی کوئی حق تلفی ہو رہی ہے۔ میں نہیں سمجھتا۔ کیا ان سے پوچھ کر چیف جسٹس کو ایسا کوئی فیصلہ کرنا چاہیے ہرگز نہیں۔ حکومت اور چیف جسٹس تو مشاورت کر سکتے ہیں۔ وکیل کیسے اور کہاں سے آگئے۔ آپ نے پیش ہونا ہے۔ جہاں بھی عدالت ہو گی وکلا نے پیش ہونا ہے۔
آپ کا پٹرول زیادہ لگتا ہے ۔ کیا یہ کوئی معقول وجہ ہے۔ آپ سائل سے فیس زیادہ لے لیں۔ حکومت نے کونسا آپ کی فیس کے ریٹ مقرر کیے ہوئے ہیں۔ کہ آپ اس سے زیادہ فیس نہیں لے سکتے۔ اس لیے وکلا برادری کو اکٹھے بیٹھ کر اس ہڑتال کلچر کو ختم کرنے پر غور کرنا چاہییے۔ عدلیہ کو بھی ایسے حکم پاس کرنے چاہیے جہاں پیش نہ ہونے پر وکیل کے خلاف کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔ سائلین کے حق کو محفوظ کرنا ہوگا۔ وکیل کو ذمے دار ٹھہرانا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس