انتظامیہ اور مقنّنہ کس کو چٹھی ڈالیں؟ : تحریر عرفان صدیقی


دو تین دِن قبل ایک شوخ وچنچل اور فکر انگیز خبر پر نگاہ پڑی۔ ’’لاہور ہائیکورٹ کے جج، مسٹر جسٹس شاہد کریم نے حکمِ امتناعی جاری کرتے ہوئے، 13 مئی تک حکومت پنجاب کو طلبہ وطالبات میں موٹر سائیکل تقسیم کرنے سے روک دیا ہے۔‘‘ عزت مآب جج صاحب کے سامنے کوئی شہری اِس طرح کی درخواست لے کر نہیں گیا تھا لیکن کسی اور مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اچانک اُن کا دھیان اِس بڑے ’قومی مسئلے‘ کی طرف چلاگیا۔ حکمِ امتناعی کا جواز بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ’’موٹر سائیکل ملنے پر شریر لڑکے ’وَن۔ویلنگ‘ بھی کرسکتے ہیں اور اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ وہ موٹر سائیکل لئے طالبات کے تعلیمی اداروں کے گرد چکر کاٹنے اور اُنہیں ہراساں کرنے لگیں۔‘‘

یہ خبر پڑھتے ہوئے جسٹس شاہد کریم ہی کی طرح، میرا دھیان بھی بلاوجہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کے شہرۂِ آفاق خط کی طرف چلا گیا جس نے ایک تلاطم سا بپا کررکھا ہے۔ اس خط کا نفسِ مضمون یہ ہے کہ انتظامیہ اور ایجنسیوں کے اہلکار ہمیں تنگ کرتے اور چھیڑتے ہیں۔ اگرچہ جسٹس شاہد کریم کے دانش مندانہ فیصلے اور چھ جج صاحبان کے مظلومانہ خط میں بظاہر کوئی قدرِ مشترک نہیں لیکن میری سوچ کی شاخ پر ایک عجیب سے خیال کا شگوفہ پھوٹا۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے میں واضح کردوں کہ عدلیہ کی آزادی ہم سب کو بے حد عزیز ہے کہ اس کے بغیر معاشرے جنگل بن جاتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کارگاۂِ شیشہ گری میں سانس بھی آہستہ لینی چاہیے کہ کہیں کسی آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ لیکن نوکِ قلم پہ آئی بات روکنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ سنتے چلے آرہے ہیں کہ ریاست تین ستونوں پہ کھڑی ہے۔ انتظامیہ، مقنّنہ اور عدلیہ۔ آئین بڑی وضاحت کے ساتھ تینوں کے کرداراوردائرۂِ کار کا تعین کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری عدلیہ نے ریاست کے دیگر دو ستونوں کو تختۂِ مشق بنانے کا نام ’’عدلیہ کی آزادی‘‘ رکھ دیا ہے۔ اگر ایک منتخب حکومت بچوں کو موٹر سائیکل دینے کا اختیار بھی نہیں رکھتی تو کیا یہ اُسی طرح کی، بلکہ اُس سے بھی کہیں زیادہ نازیبا مداخلت اور چھیڑخانی نہیں جس کا گلہ چھ جج صاحبان کررہے ہیں؟ اگر انتظامیہ کی ایک حد مقرر ہے اور وہ اس سے بال برابر آگے نہیں بڑھ سکتی، اگر فوج کیلئے ایک ریڈ لائن موجود ہے، اگر عوام الناس کیلئے ایک برقی خاردار تار لگادی گئی ہے اور اگر پارلیمنٹ کے قوانین کو چشم زدن میں کوڑے دان میں پھینکا جاسکتا ہے، تو کیا عدلیہ کی بھی کچھ حدود وقیود ہیں یا نہیں؟ کیا اُسے روزمرہ کے انتظامی، حکومتی معاملات میں اس طرح کی مداخلت کرنی چاہیے جس کا مظاہرہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناعی سے ہوا ہے؟

ہماری تاریخ، انتظامیہ اور مقنّنہ کے معاملات میں عدلیہ کی مداخلتِ بے جا کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اُس نے بے سوچے سمجھے بین الاقوامی معاہدوں تک کو ادھیڑ پھینکا اور پاکستان کو مجرم بنا کر عالمی اداروں کے کٹہرے میں کھڑ اکردیا۔ میرے پاس کچھ اعدادوشمار نہیں کہ عدلیہ کی اس ’’تجاوزپسندی‘‘ سے پاکستان کو کتنے ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا؟ اس مہم جوئی سے خارجی اور داخلی سرمایہ کاری پہ کتنی کاری ضرب لگی؟ بلاشبہ قومی اہمیت کے حامل درجنوں داخلی منصوبوں پر ’’حکم امتناعی‘‘ کی تلوار چلا کر ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچایاگیا۔ اٹھارہ برس پہلے 2006میں عزت مآب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسٹیل ملز کی فروخت ممنوع قرار دے ڈالی۔ آج اس کے واجب الادا قرضے کا حجم اُس کے مجموعی اثاثوں سے بڑھ چکا ہے۔

2015ءمیں لاہور اورنج ٹرین منصوبے کا آغاز ہوا۔ چند ماہ بعد لاہور ہائیکورٹ نے حکمِ امتناعی جاری کردیا۔ حکومت سپریم کورٹ پہنچی۔ سوا سال بعد10 اپریل 2017میں سماعت مکمل ہوگئی لیکن فیصلہ محفوظ کرلیاگیا۔ یہ فیصلہ اگلے آٹھ ماہ تک محفوظ رہا اور کام رُکا رہا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وسط 2018ءمیں انتخابات ہورہے تھے اور ’’عدلیہ‘‘ نہیں چاہتی تھی کہ اورنج لائن انتخابات سے پہلے مکمل ہوجائے اور شہبازشریف کی ٹوپی میں سرخاب کا ایک اور پَرلگ جائے۔ سو 8 دسمبر2017 کو، انصاف پروری کی درخشاں تاریخ رکھنے والے، جسٹس اعجازالاحسن نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کام جاری رکھنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ 25اکتوبر2020کو وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے اورنج ٹرین کا افتتاح کردیا اور ’عدل‘ کے تقاضے پورے ہوگئے۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ عدلیہ کی اس چھیڑ خانی سے منصوبے کی لاگت میں کتنے ارب روپے کا اضافہ ہوا؟

مدتوں سپریم کورٹ کے ’’سوموموٹو‘ اختیار نے قیامت بپا کئے رکھی۔ پارلیمنٹ نے اسے ضابطے میں ڈھالنا چاہا تو عالی مرتبت عطا بندیال اور اُن کے ہمنوا بھڑک اٹھے۔ شکر ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کو توقیر بخشی اور(3) 184 پر فردِ واحد کی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ لیکن حکمِ امتناعی (stay order) کی تلوار، چھوٹی یا بڑی، ہر عدالت کے ہر جج نے تھام رکھی ہے۔ اس وقت زیرِالتوا مقدمات کی تعداد 23 لاکھ کو چھورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کم وبیش 60فی صد مقدمات کسی نہ کسی حکمِ امتناعی کی صلیب پر لٹک رہے ہونگے۔ ٹیکسوں سے متعلق ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ مقدمات مختلف عدالتوں میں اٹکے ہیں اور حکومت کو واجب الادا کھربوں روپے پھنسے ہوئے ہیں۔

انتظامیہ اور ایجنسیوں کی چھیڑخانی کے بارے میں چھ جج صاحبان کا شکوہ بجا۔ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے پیش نظر، بچوں کو موٹر سائیکل نہ دینے بارے جسٹس شاہد کریم کا ’’تاریخ ساز حکمِ امتناعی بَرحق،‘‘ لیکن کیا بات بات پر انتظامیہ اور مقنّنہ کے کان کھینچے والی عدلیہ کبھی اپنی آئینی حدودِ کارکا تعین بھی کرے گی؟ آپ لاکھوں مقدمات زیرِالتوا چھوڑ کر ڈیم بنانے نکل کھڑے ہوں تو ٹھیک، آپ اربوں روپے کے فلک بوس ٹاور گرادیں تو ٹھیک، آپ اربوں روپے کی لاگت سے بنائے گئے ہسپتال کو مفلوج کردیں تو ٹھیک، آپ کسی سرکاری اہلکار کی ترقی نہ ہونے پر سرعام وزیراعظم کو نشانۂ ِ تضحیک بناتے ہوئے اڈیالہ جیل بھیجنے کی دھمکی دیں تو ٹھیک، آپ عوام کے منتخب سربراہِ حکومت کو ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسلین مافیا‘‘ کی گالی دیں تو ٹھیک، آپ وزیراعظم کو سانس لینے کے لئے بھی کابینہ کا محتاج کردیں تو ٹھیک، آپ کسی پولیس افسر کے تبادلے کی راہ میں کھڑے ہوجائیں تو ٹھیک، آپ وزیراعظم کو ’’توہینِ عدلیہ‘‘ کا مرتکب قرار دے کر کھڑے کھڑے فارغ کردیں تو ٹھیک، آپ سیاسی مصلحت کے پیش نظر مرضی کا آئین لکھ لیں تو ٹھیک، آپ پارلیمنٹ کے بطن میں پڑے قانون کا ’’جبری اسقاط‘‘ کردیں تو ٹھیک اور آپ اپنی ’’آزادی‘‘ کی ترنگ میں انتظامیہ اور مقنّنہ کو ایوانِ عدل کی کنیزیں سمجھنے لگیں تو ٹھیک۔

اس سب کچھ کے باوجود آپ کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ آپ چھیڑ خانی کرنے والوں کی شکایت کریں اور سپریم کورٹ آپ کی فریاد سنے۔ لیکن ہم اپنی عرضی کس ’بارگاۂِ عدل‘ میں گزاریں؟ ’’تجاوزات‘‘ کے تازیانے کھاتی انتظامیہ اور مقنّنہ کس دیوارِ گریہ سے سَر ٹیک کر اپنی بے چارگی کا نوحہ پڑھیں؟ نگاہیں بار بار چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ کی طرف اٹھتی ہیں جو عدالتی معاملات کی اصلاح احوال کے لئے کوشاں ہیں اور جن سے قوم کی بڑی امیدیں جُڑی ہیں۔ کیا وہ اپنے ’’ستون‘‘ کو سمجھا سکیں گے کہ وہ خواہ مخواہ، دوسرے دوستونوں کو ٹکریں نہ مارے اور لاہور ہائی کورٹ جیسے حکمِ امتناعی جاری کرکے خود عدلیہ کی سبکی کا سامان نہ کرے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ