مسخرے…تحریر محمد اظہر حفیظ


پاکستان کے زیادہ ترمیڈیا کا پرائم ٹائم مسخروں کے پاس ہے۔ وہ اپنی طرف سے ٹھنڈی قسم کی جگتیں کر کر کے عوام کا مہنگائی سے دھیان ہٹاکر خود امیر سے امیر بنتے جارہے ہیں۔
پرائم ٹائم میں زیادہ تر چیننلز پر مسخرے ایک خود ساختہ دانشور یا اویں ادبی شخصیت کے ساتھ جوکہ اینکر بنا ہوتا ہے عوام سے بے ادبی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں دو مسخروں کی ایک دوسرے کے گھر مٹھائی دینے کے معاملے میں خود ساختہ لڑائی ہوگئی اور انھوں نے سوشل میڈیا پر خوب پیسے کمائے۔ اور اس پر عوام بھی شاید خوش ہوں۔
لیکن ہمارے سیاستدان ان سے کہیں زیادہ میڈیا پر شغل لگاتے ہیں۔
پہلے یہ کام شیخ رشید صاحب کرتے تھے پھر یہ کام ہر تین مہینے بعد کوئی اور سنبھال لیتا ہے۔پہلے کو پارٹی پارٹی سے بے دخل کر دیتی ہے۔
لیکن آج کل جتنی شغلی باتیں علی امین گنڈا پور کررہے ہیں شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئیں ہوں۔
بلاناغہ وہ بیان بازی کرکے لوگوں کو ہنساتے رہتے ہیں اکیلا بندہ کتنا کسی کو ہنسا سکتا ہے ہنسانے والوں کی ٹیم کم از کم دو لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے شکر الحمدللہ ہمارے محترم صدر صاحب نے گنڈا پور کے علاقے سے ہی گورنر کا چناؤ کیا کیونکہ مسخروں کا ایک علاقے سے ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پہلے زیادہ تر مسخرے گوجرانولہ ، فیصل آباد اور ملتان سے آتے تھے پھر پرائم ٹائم شوز نے ہر علاقے میں پیدا کرنے شروع کردیے ۔ اب وزیراعلی علی امین گنڈا پوراور گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کو ہی دیکھ لیجئے روزانہ کی بنیاد پر ہنسانے کا بندوست کرتے ہیں۔ وزیراعلی اپنے نام سے گنڈاسا استعمال کرنے کی دھمکی دیتے ہیں تو گورنر بھی کہتے ہیں دوڑنے نہیں دوں گا کنڈی لگا لوں گا۔
مذہبی علماء میں مولانا طارق مسعود صاحب بھی اپنی حد تک پرانے لطیفے اپنے سے وابستہ کرکے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح انکے مسخرے پن سے متاثرہ کچھ خواتین اب انکی شریک حیات بن چکی ہیں ۔
سوشل میڈیا سٹار وہی ہے جو ہنساتے ہنساتے فحش ہوجائے۔ اور پھر اپنی فحش اور ذومعنی گفتگو سے خوب پیسے کماتے ہیں۔
کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی پولیٹیکل پروگرام کی گفتگو فحش ہوسکتی ہے اس کی بنیاد سیاسی ڈیرہ نامی یوٹیوبر نے کی۔ چھٹہ صاحب اپنی عمر کا حساب لگائے بغیر شاید ہنسانے کیلئے فحش ہونے کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔
کل میرے ایک پرانے دوست یہ دعویٰ کررہے تھے کہ میرے پروگرام میں جو بھی دست وگریباں ہو جائے بدقسمتی سے مشہور ہوجاتا ہے۔ ایک عام سا وکیل ایک سیاسی جماعت میں شامل ہوتا ہے اور چوہدری صاحب کے پروگرام میں کچھ چپیڑیں کھاتا ہے اور کچھ چپیڑیں مارتا ہے۔ اس قابل مذمت کام پر وہ اپنی بہادری کے قصے سناتا ہے پھر ممبر نیشنل اسمبلی بن جاتا ہے۔وہ ہمیشہ ایسی لینگویج استعمال کرتا ہے جو شرفاء کے گھروں میں استعمال نہیں کی جاتی پھر اسکی پارٹی اسی لینگویج کو بنیاد بنا کر اس مسخرے کو کھڈے لائن لگا دیتی ہے۔
اس کا ایک بدتمیزانہ جملہ بہت سے مرد و زن کی زبان پر عام ہے۔ جو شاید میں یہاں لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ اس کیلئے معذرت۔
ہم ہر طرف سے مسخروں میں گرے ہوئے ہیں۔ ہماری قوم بدحالی کے اعلی مقام پر فائز ہے دشمن دوست سب مذاق اڑاتے ہیں ۔
شاید یہ مسخرے بھی آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ ہیں کہ عوام اس بدحالی میں بھی مسکرائے۔
عوام تو اپنے حکمرانوں کی وجہ سے برے انجام تک پہنچ چکی ہے شکر ہے ساتھ ہلکی ہلکی ڈھولکی بج رہی ہے ورنہ عوام بور ہوکر ہی غربت سے مرجاتے۔