معاشرے جب بیمار ہوتے ہیں تو ان میں قنوطیت، یاسیت اور ناامیدی چھا جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ماحول بن چکا ہے۔ کوئی اچھی خبر آئے تو ہم سب اسکے اندر سے منفی پہلو تلاش کرکے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کچھ اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارا حال اس بیمار جیسا ہے جو اپنے زخموں پر خارش کرکے اس سے ہونیوالے درد کا مزہ لیتا ہے۔دنیا میں کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو ایذا دیکر اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو مرچ کی تلخی بھی مستقل مزا دینے لگتی ہے۔ ہماری اس بیماری میں ہمارے اوورسیز نمک مرچ چھڑک کر اسے عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔ قنوطیت میں انسان کو کسی دوسرے کی کوئی خوبی، اچھائی یا مثبت بات نظر نہیں آتی، اسے ہر چیز ٹیڑھی نظر آتی ہے۔
آج خوش ہونے کا موقع ہے کہ پاکستان 56 اسلامی ممالک میں سے پہلا ہے جس نے چین کی مدد سے چاند کی طرف مشن روانہ کیا ہے مگر قنوطیت کے شکار لوگ کہہ رہے ہیں یہ تو چین کی مدد سے ہو رہا ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا بھر میں سائنسی ترقی ایک دوسرے کی مدد سے ہی ہوتی ہے۔ چین پر آج تک الزام ہے کہ اس نے ایک چینی سائنس دان کی مدد سے امریکی ایٹمی ٹیکنالوجی چرائی، امریکہ کو ایٹم بم بنانے میں جرمن سائنس دانوں نے مدد دی، شمالی کوریا چین سے مدد لیتا ہے، ہم بھی اپنا گولہ بارود کئی ملکوں کو دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں مسلم تہذیب کے بو علی سینا اور ابن رشد کی یورپ پیروی کرتا تھا، اب ساری دنیا امریکہ کی پیروی کرتی ہے۔ دنیا میں یہ چلتا رہتا ہے۔ بہرحال آج فخر و مباہات کا مقام ہے کہ پاکستان نے خلا کی طرف مراجعت کی ہے، اس پر قنوطیت کے شکار بے شک اعتراض کریں لیکن باقی لوگوں کو تو خوش ہونا چاہئے۔
ناامیدی کے شکار ہوسکتا ہے ملک سے بڑی محبت کرتے ہوں مگر اب انکی محبت میں بدلے اور انتقام کا رنگ زیادہ نظر آتا ہے۔ پاکستان میں کوئی حادثہ یا کچھ برا ہو تو وہ اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ انکی ناامیدی درست ثابت ہو رہی ہے۔ نفسیاتی طور پر اسے احساس جرم کہاجائے یا ملک کیساتھ وابستہ امیدیں توڑنے کے فیصلے کو صحیح قرار دینے کا اطمینان۔ اسکی جو بھی نفسیاتی وجوہات ہیں ملک کو اس رویے نے شدید نقصان پہنچایا ہے ان قنوطیوں کو پاکستان میں کچھ بھی ٹھیک نظر نہیں آتا، ہر بات پر اپنے ہی ملک کے لتے لیتے دکھائی دیتے ہیں، جیسے کہ اس ملک کی خرابیوں میں انکا کوئی حصہ ہی نہیں۔ میری نظر میں یہ رویہ بیماری کی نشانی ہے، ایسے لوگ بے جا نفرت، تعصب اور دشمنی کا شکار ہو کر اپنا توازن کھو بیٹھے ہیں، انہیں خود کو اس بیماری سے نکالنا چاہئے۔ بدقسمتی سے یہ قنوطی مادرِ وطن سے محبت کرنے کے جذبے سے عاری ہوچکے ہیں، کوئی ان سے پوچھے ماں میں خرابیاں بھی ہوں تو کیا اس سے محبت کرنی چھوڑ دی جائے؟ دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی خامیاں اور خوبیاں دونوں ہیں ، کیا اس کی چند خرابیوں کی وجہ سے ملک کو ہی ہدف تنقید بنالیا جائے، یہ بالکل غلط اور مریضانہ رویہ ہے۔
قنوطیوں کو چھوڑیں کیا یہ حقیقت نہیں کہ پوری دنیا میں صرف آٹھ ملک ہیں جن کے پاس ایٹم بم ہیں اور چوٹی کے ان آٹھ ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ 56 اسلامی ممالک میں سے ہم واحد ہیں جویہ صلاحیت رکھتے ہیں، بہت سے ممالک ہم سے معیشت میں بہتر ہیں، اثرو رسوخ بھی ہم سے زیادہ ہیں مگر وہ یہ جرات نہیں کر سکے۔ قنوطی ہر وقت پاکستانی قیادت کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے، لیکن ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف میں ہزار اختلافات تھے مگر سب نے عالمی دباؤ ، دھمکیوں اور ترغیب و تحریص کے باوجود ایٹمی مشن کو جاری رکھا اور اسے پورا کرکے دکھایا۔ دنیا میں ایک بھی ایسی مثال نہیں کہ اتنے کم وسائل کے حامل ملک نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہو۔اسی طرح ہمیں بھی اپنی فوج کے سیاسی کردار پر تحفظات ہیں مگر یہ تو ماننا پڑیگا کہ پاک بھارت 4جنگوں اور دو افغان عالمی جنگوں کے باوجود انہوں نے عدم استحکام نہیں آنے دیا، ہم نے 75سال میں چھ جنگیں لڑی ہیں جو ایک بین الاقوامی ریکارڈ ہوگا مگر اسکے باوجود نہ ملک میں قحط پڑا، نہ معاشی ابتری آئی۔ کسی نہ کسی طرح ملک چلتا رہا۔ دہشتگردی اور تخریب کاری کو فوج اور سیاست دانوں نے مل کر ناکام بنایا۔ کراچی میں امن و امان اور سیاست کی جو حالت ہوگئی تھی فوج بیچ میں نہ پڑتی تو نجانے آج کراچی پاکستان کا حصہ بھی ہوتا یا نہیں؟۔
پاکستان کے باسی ہونے کی حیثیت سے ہمارے مقتدرہ اور سیاسی حکمرانوں سے اختلاف باعث حیرت نہیں مگر مقتدرہ سے نفرت یا اپنے سیاسی مخالفوں کو برداشت ہی نہ کرنا غیر صحتمندانہ رویہ ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ فوج بھی جمہوریت کی اسٹیک ہولڈر ہے کیونکہ جمہوریت کی پہلی شرط کسی بھی ملک یاریاست میں امن و امان کا قیام اور انارکی کا خاتمہ ہے، جس ملک میں امن نہ ہو، خانہ جنگی ہو وہاں جمہوریت نہیں آسکتی اور امن لانے کیلئے وجہ ضروری ہے، اسلئے ہمیں فوج کے سیاسی کردار پر تو تحفظات ہوسکتے ہیں اسکے جمہوری کردار کو تسلیم کئے بغیر پائیدار جمہوریت قائم ہی نہیں ہوسکتی۔
اس بات پر بھی خوش ہولیں کہ ہمیں اپنے ملک سے سو سو گلے ہیں لیکن 56 اسلامی ممالک میں یہ واحد ملک ہے جہاں اسلامی اور جمہوری آئین نافذ ہے، ہم اسلامی دنیا میں پہلے ہیں جنہوں نے جمہوریت کو اپنایا، ہم واحد اسلامی ملک ہیں جہاں بھلے یا برے انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں، باقی اسلامی دنیا میں اس کا تصور بھی نہیں، ہم واحد اسلامی ملک ہیں جہاں کسی حد تک آزاد میڈیا ہے کسی بھی مسلمان ملک میں براہ راست الیکشن نشریات دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔ دبئی، سعودی عرب اور چین معاشی طور پر ہم سے کتنے آگے ہیں لیکن وہاں تحریر و تقریر اور ڈیجیٹل میڈیا پر اب بھی پابندیاں ہیں۔ یہ سب بتانے کامطلب یہ نہیں کہ ہم اور آزادیاں نہ مانگیں، بتانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اب بھی باقی دنیا سے کہیں آگے ہیں، ہمیں قنوطی بن کر نہیں بلکہ شکر گزار بن کر ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
ہمارے قنوطی بھائیوں کو پاکستان کی ہر چیز ٹیڑھی نظر آتی ہے، ایک نے چاند کی طرف سفرپر طنز کیا کہ قرض سے جکڑے ملک کویہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟وہ یہ بھول گئے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قرض امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک پر ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی امید سے ہوتی ہے، ہمارے قنوطی بھائیوں نے اسی امید کو عنقا بنا دیا ہے، ہمیں چاہیے کہ پہلی لڑائی اس قنوطیت اور مایوسی کے خلاف لڑیں۔ پاکستان کو کسی نے باہر سے آ کر ٹھیک نہیں کرنا ہم پاکستانیوں نے ہی اسے ٹھیک کرنا ہے اور یہ تبھی ٹھیک ہوگا جب ہم امید کی جوت جگائیں گے، مستقبل کیلئے سہانے خواب دیکھیں گے اور پھر سب مل کر ان خوابوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کرینگے، پاکستان ہی ہماری جنت ہے ہم سب کو اسی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانی ہیں۔ قنوطیت جاری رہی تو یہ جنت ہی جہنم نظر آنے لگے گی۔ زاویہ نگاہ بدلیں قنوطیت سے جان چھڑائیں آپ صحت مند ہو جائیں گے….
بشکریہ روزنامہ جنگ