پچھلے 3ہفتوں میں انتہائی اہم رہنماؤں سے ’’ساڑھے تین‘‘ملاقاتیں نصیب بنیں۔ 8 اپریل، محترم نواز شریف کی افطاری سے آغاز، 2دن پہلے نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان، دو ہفتے پہلے محترم مولانا فضل الرحمن سے اور حادثاتی طور پر جنرل (ر) باجوہ سے آدھی ملاقات، گفتگو ملک کو درپیش مشکلات کے گرد گھومتی رہی۔
آدھی ملاقات اسلئے کہ فریق ثانی کو کانوں کان خبر نہ ہو پائی۔ دو ہفتے پہلے ایک تقریب ولیمہ پر، حسب عادت شامی صاحب کا معلوم کیا۔ برادرم اعجاز الحق نے بتایا کہ آ چُکے ہیں اور میرا پوچھ رہے تھے۔ بغیرکسی تردُد ڈھونڈ نکالا، قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دور افتادہ کونہ میں جنرل قمر باجوہ اور محمد مالک کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ میرا ٹھٹکنا بنتا تھا کہ جنرل باجوہ کے ریاست کیخلاف جرائم کی فہرست میرے سامنے آ گئی۔ چند قدم دور رُک کردوسرے دوستوں کیساتھ ایسے براجمان ہوا کہ نگاہ اجتماعِ ثلاثہ پر رہے۔ 20منٹ بعد نشست برخاست ہوئی تو دونوں بھائی مبہوت دل و دماغ کیساتھ تشریف لائے۔ احوالِ ملاقات من و عن بتایا کہ جنرل باجوہ نے سارا وقت اپنا مقدمہ پیش کیا۔ گواہی میں قرآن سامنے کھول کر رکھ دیا، رسول اللہﷺ کی شفاعت سے محرومی اور والدہ محترمہ کی قبر کی قسمیں کھائیں۔ یوں عقیدہ، ایمان اپنی سچائی ثابت کرنے میں جھونک ڈالے۔ 52 سال سے شامی صاحب کے سایہ عافیت میں ہوں، ہر ذیِ نفس کو مارجن دیتے ہیں اور جب تک جھوٹ ثابت نہ ہو بآسانی صادق کا سرٹیفکیٹ داغ دیتے ہیں۔
جنرل باجوہ کے 6 سالہ ’’کارنامے‘‘ تاریخِ پاکستان کا سیاہ باب ہیں، ہر خاص و عام کو اَزبر ہیں۔ جو بندہ دن دہاڑے حلف کی دھجیاں اڑائے، آئین پاکستان کو6 سال روندے، دوسری توسیع کیلئے جنرل فیض اور عمران خان کی مدد سے اپنے ادارے کیخلاف لانگ مارچ منظم کرے۔ بہترین جوہری ہتھیار اور مہلک بیلسٹک میزائل سے لیس ملک، آج چاند پر سیارہ روانہ کرنے کو ہے (مبارک سلامت)۔ ایسی مضبوط بے مثال فوج بارے بے نقط ہرزہ سرائی کرے کہ ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں، ٹینکوں کو چلانے کیلئے تیل نہیں، تف ہے۔ 5اگست 2019ء کشمیر بھارت کے حوالے کیا،LOCپر بزدلانہ صلح معاہدہ کرڈالا۔ ایسے شخص کو مجرموں کے کٹہرے میں ہونا تھا۔ بدقسمتی کہ دیدہ دلیری سے اپنی صفائیاں دے رہا ہے۔ خلیل جبران کا قول دونوں بھائیوں کی نذر کیا، ’’اس نے مجھے ایک بات بتائی میں نے مان لی، اُسنے دُہرائی مجھے شک گزرا، جب اُسنے قسمیں کھاکر دُہرایا تو مجھے پختہ یقین ہو گیاکہ جھوٹ بول رہا ہے‘‘۔ اپنے بھائیوں کی سادگی اور سیدھا سادہ پن، جنرل باجوہ کی قسموں پر اُنکی دل گرفتگی ’’اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔ خدا جانے، دونوں نامور دانشوروں نے اسکے 6سالہ مجرمانہ دور سے کیسے صَرف نظر کیا ۔
دو دن قبل نومنتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے وسیع و عریض پیمانے پر میڈیا کو عشائیہ دیا۔ عشائیہ بہانہ، تفصیلی گفتگو حاصلِ ملاقات تھی۔ میرے حساب کتاب میں شاید پہلی دفعہ جماعت کے کسی امیر کی شروعات ایسے ولولہ انگیز، بہت کچھ کرنے کے عزم سے بھرپور، اپنی دھاک بٹھا دی۔ امیر جماعت نے پلک جھپکتے وطنی فکرو فاقہ، ناگفتہ بہ صورتحال اور دگرگوںملکی حالات کا تفصیلی احاطہ کیا۔ جماعت اسلامی کی سیاسی راہِ عمل کے خدوخال واضح کئے۔ عوام الناس میں جماعت کا اثرو رسوخ بڑھانے کیلئے ایک نئی روح پھونکنے کا عزمِ صمیم نظر آیا۔ کسی دوسری سیاسی جماعت کا سہارا بننے یا سہارا لینے سے قطعی اعلان ِبرأت فرمایا۔ ریاست کی نبض پر ہاتھ تھا اور مرض کی تشخیص سامنے رکھ دی۔ جماعت اسلامی علاج کیلئے کتنی استطاعت پیدا کر پائے گی، وقت بتائے گا؟ حافظ صاحب کی غیر معمولی کارکردگی ہوگی تو خواہشات بَر آئیں گی۔
دو ہفتے قبل مولانا فضل الرحمن کی لاہور آمد، حکم نامہ ملا کہ فوری پیشی ہے۔ پُر تکلف عشائیہ کی تفصیلات بَر طرف، ملکی سیاسی بحران پر تفصیلی گفتگو چشم کُشا تھی۔ برادرم مجیب الرحمن شامی کی معیت میں ملاقات نے گفتگو کو مزید چار چاند لگائے۔ ازراہ تفنن، اشائے خورونوش کی وسعت دیکھ کر مولانا محترم کو بصد ادب یکم جنوری 2021ء کا ناشتہ یاد دلایا، دسترخواں سے سیدھا ہسپتال پہنچا اور چند گھنٹے بعد ایک عدد اسٹنٹ، بند شریان کا نصیب بنا۔ مولانا اور شامی صاحب کے قہقہے ہرگز میری آسودگی نہ تھے۔ مولانا سے ملاقات ہمیشہ زرخیز رہتی ہے۔ اُنکے اقوالِ زریں، علم و دانش، فہم و فراست سے عقل و خرد کی گتھیاں پلک جھپکتے سلجھتی ہیں۔ سیاست پر مولانا PHD بلکہ اپنی ذات میں مکمل ادارہ ہیں۔ یادش بخیر، 15/20 سال پہلے اچھے دنوں میں عمران خان بھی ان کی گفتگو اور نقطہ نظر کی سحر انگیزیوں کی زد میں، بَرملا اعتراف کرتے تھے۔ اس دفعہ مولانا غصے وجلال میں اسٹیبلشمنٹ پر بہت سیخ پا نظر آئے۔ وطنی سیاسی حالات سے پریشان اور فکر مند تھے۔ پچھلے 6/7 سال میں جب بھی ملاقات ہوئی ملکی حالت زار بارے ایسی جھنجلاہٹ اور فرسٹریشن کبھی موجود نہ پائی تھی۔ اگرچہ JUI کے پاس پارلیمان میں عددسیاسی قوت موجود نہیں مگر کسی کو انکار نہیں کہ اسٹریٹ پاور میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ باجماعت سب انکی طاقت کے معترف ہیں۔ 8فروری سے پہلےتحریک انصاف دو سال کے بے شمار ناکام جلسوں، دو ناکام لانگ مارچ اور ناکام جیل بھرو تحریک کا بھرپور تجربہ رکھتی ہے۔ امابعد 8فروری کی صورتحال مزید ابتر اور بدتر، پچھلے 3 ماہ میں 7/8دفعہ ملک گیر احتجاج کی کال دی، ناکامی اور ہزیمت مقدر بنی۔ آج مولانا کی طرف للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ مولانا نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ’’ اسٹیبلشمنٹ کا انکے بارے میں رویہ ہمیشہ دوغلا رہا ہے۔ بے شمار دفعہ جب کبھی مشکل میں آئی، اسٹیبلشمنٹ نے انکی مدد مانگی اور ہم نے مشکلات سے نکالا۔ بد قسمتی سے سب سے پہلا دھوکہ ہمیں ہی دیا گیا‘‘۔ سیاست میں مولانا صاحب کا موقف اٹل، ڈٹے ہوئے ہیں۔ اپنی سیاسی LEGACY کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ والد صاحب سے وراثت میں ملی نظریاتی سیاست انکا اثاثہ ہے۔
یوں تو بے شمار باتیں ہوئیں، حاصلِ کلام، اسٹیبلشمنٹ سے شکایات کا ایک انبار تھا، اسکا اظہار تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے کسی پیرائے میں یہ بھی فرمایا کہ’’میں اور نواز شریف ایک ہی صفحہ پر ہیں اور ایک ہی سوچ کے حامل ہیں۔ کسی وقت میری تحریک کا ضرور حصہ ہونگے‘‘۔ دُعا گو تھے کہ ’’نواز شریف بھی دیدہ دلیری سے کوئی لائحہ عمل اختیار کر پائیں‘‘۔ بہر حال مولانا ’’شہادت گہہ الفت میں قدم‘‘ رکھ چکے ہیں۔ لگ بھگ 2 گھنٹے پر محیط یہ ایک بھرپور ملاقات تھی۔ حسب روایت گفتگو اور طعام دونوں سے خوب لطف اندوز ہوئے اور مولانا سے بہت کچھ سیکھ کر بھی آئے۔ اگلے دن مولانا صاحب نے کوئٹہ تشریف لے جانا تھا، جہاں انہوں نے پشین میں اپنے عزائم کا برملا اظہار کرنا تھا اور کیا۔ میاں نواز شریف سے ملاقات کا احوال، یار زندہ صحبت باقی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ