جس دن سے ممبئی میں مکیش امبانی کی بیوی کے گلے میں پڑے ہار کی قیمت پاکستان کے بجٹ کے برابر بتائی گئی ہے میں دل ہی دل میں شرمسار ہو رہی تھی کہ پیچھے سے ماضی نے آوازدی کہ ایک وقت بے نظیر کے ہار کی کہانی پھر انجیلیا جولی کے ہار کی کہانی اور اب تک اربوں روپوں کیا ڈالروں کی فرح گوگی کی کہانی یاد کرکے اوریہ پڑھ کے پھر شرمسار ہوئی کہ آئی۔ایم۔ایف، پاکستانی معیشت پر رحم کھاتے ہوئے قلیل مدت کیلئے سرمایہ دینے کو رضا مند نظر آتاہے۔شرط بھی ہے کہ جو سرکاری ادارے اپنے ہونے کا مالی جواز فراہم نہیں کر رہےانکو بند کر دیا جائیگا۔ یاد آیا کہ جب سے فہمیدہ ریاض کاکنٹریکٹ ختم ہوا ، اس کے بعد سے قائداعظم اور اردو لغت بورڈ کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ بچت کے نام پہ PIDC کےہوٹل، آرمی کو دینے کی منصوبہ بندی ہے، بالکل اسطرح کسانوں اور فوج کے اشتراک سے جدید کاشتکاری کو فروغ دیئے جانے کا منصوبہ ہے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے700 ارب کی ضرورت ہے۔ یہ سارے کام بیکار نوجوانوں سے لیں کہ فوج کو دہشت گردوں نے عذاب ڈالا ہوا ہےجوان شہید ہو رہے ہیں۔ اسوقت ہماری زیادہ تر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر نہیں ہیں اور بچت کا شور، ہر گزشتہ زمانے کی طرح ایسے ہی ہے کہ گزشتہ سالوں میں بجلی کے نرخ بڑھے توبچت کا حکم ہوا۔ کہا گیا کہ قومی اور نجی اداروں میں بارہ بجے دوپہر تک اے۔سی نہیں چلیں گے۔ کورونا کے زمانے میں کہا گیا کہ دفتروں کا آدھا اسٹاف گھروں سے کام کر یگا۔ ہنسی آتی ہے جو قوم دفتروں میں کام نہیں کرتی اور جسکے کام کرنے والے اسٹاف کو جانے والی حکومت کااعمال نامہ تیار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، وہاں محض اعدادوشمار چلتے ہیں اور ترقی بس فائلوں میں ہوتی ہے آخر ڈھائی سال کی فائلوں پر جب باجوہ صاحب کے دستخط نظر آئیں تو دیگر موضوعات جیسے گھڑی یا القادر یونیورسٹی کے موضوعات اور 9مئی کے واقعات ، جن پر عدالتی کارگزاری شروع نہیں ہوئی۔ یہ عوام کی توجہ کیلئے پیش کئے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جو جیل میں ہیں ، انکے نام سینیٹ کے الیکشن کیلئے پیش کیے جا رہے ہیں یہ بالکل 8 فروری کی رات بارہ بجے کے بعد، الیکشن مرتب کیے جانے کا منظر یا پھر روس کیلئے بھی پانچویں دفعہ صدر منتخب ہونے کا واقعہ ایک سا لگتا ہے۔ یاد کریں شریف صاحب کے تیسرے دور میں 27 وزارتیں بنادی گئی تھیں۔ ثقافت کی وزارت اور کھیلوں کے بھی دو حصے کر دیئے گئے تھے۔ اس دفعہ ایک طرف I.M.F. اور دوسری طرف سینیٹ کی کرسیاںانکو بھرنے کیلئے کچھ نئے وزیر بھی چاہئیں کہ محسن نقوی اور اورنگ زیب بظاہر وزارتوں میں اچانک آگئے، جگہ ابھی بنائی جارہی ہے مگر یہ جو تحریک انصاف کے صدقے میں جو عورتوں کو زیادہ کامیاب کروایا گیا وہ کس لئے کہ ادھوری اور آدھی وزارت تو شزہ فاطمہ کو دی گئی جبکہ خود مسلم لیگ کی خواتین اور پی پی پی کی خواتین جو واقعی آزمودہ پڑھی لکھی ہیں ان کو پرانی اسمبلی کی کتابیں ہی پڑھنے کو دیدیں ساتھ میں یہی کتابیں حزب اختلاف میں بے مقصد شور مچاتے ممبران کو بھی دیں کہ دنیا غزہ کے بارے میں پاکستانی حکومت کا پانچ ماہ بعد احتجاج دیکھ لے۔ مسلم امہ بھی جاگ جائے۔
پانچ سال کے منصوبے کاسوچ رہے ہیں یہ مت سوچیں بس یہ تین ماہ کا منصوبہ بجٹ کے مطابق بنائیں۔ پتہ تو چل جائے کہ ان تلوں میں کتنا تیل ہے۔ I.M.F.تو سمجھ گیا ہےآپ بھی سمجھ جائیں ، بجلی ہو کہ گیس ان کے نرخ ،دیکھیں جولائی میں کتنے آتے ہیں۔ مولوی شیطان سے ڈراتے اور آپ بھی اعدادوشمار سے ڈرا کر پیاز ساڑھے تین سو روپے میںفروخت ہونے دیں اب چونکہ امریکہ، چین اور سعودی عرب نے کہہ دیا ہےکہ اب امداد نہیں تجارت مساوی سطح پر کی جائیگی تو ہمارے زعما نے سوچا ہےکہ چلو ان کو اپنے ملک آنے کا دعوت نامہ دیں۔ اب یہ گھڑی نہیں منہ دکھائی کی رقم بھی دے جائیں کہ ہمارے رہنما بس اتنا اعلان کر رہے ہیں کہ ہم تنخواہ نہیں لینگے۔ میں جب نوکری میں تھی، اس وقت بھی ایسے ہی اعلانات سنکرچپراسی نے میرے کمرے میں آکرکہا میڈم میں بھی تنخواہ نہیں لونگا مجھے وزیروں کی سی مراعات، بلوں کے پیسے اور آنے جانے کیلئےگاڑی نہیں تو سائیکل ہی دیدیں۔ واقعی شہباز صاحب کو مفت رکشے اورلیپ ٹاپ دینے کی فیاضی آتی ہے۔ شاید یونہی ڈھائی کروڑ بچے اور 46% نوجوان برسرروزگار ہو جائیں۔ ویسے 8 مارچ سے آج تک روز اخباروں میں فیچر آرہے ہیں کہ خواتین کو برسرروزگار کرنے کیلئے بہت سے ادارے سرگرم ہیں۔ کبھی ان کمروں میں جاکر بھی دیکھیں جہاں زمین پر رکھے اڈوں پر خواتین اور مرد ، تلے اور گوٹہ کناری کا کام، بڑی بڑی کلاس والی خواتین کے زرق برق لاکھوں کے جوڑے بنا رہے ہیں۔ بہت سے موٹر مکینک اور ترکھان اپنے بچوں کو موروثی کام اس لئے بھی سکھانے لگے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی نوجوان رشوت دیکر پولیس میںبھرتی ہو رہےہیں۔اس وقت عدالتوں میں بھی بارہا چیف جسٹس کو وکیلوں کو کہتے سنا ہے ’’پیش ہونے سے پہلے کچھ پڑھ لیا کرو‘‘ کیوں بے چارے غریبوں کے مقدمے آٹھ دس سال تک چلاتے ہو۔ جواب میں عدالت سے نکلتے ہوئے بڑبڑاتے ہیں کہ ڈاکٹر بھی تو خالی پانی کے ٹیکے یا ایک ٹیکہ تین مریضوں کو لگا کر رقم کماتے ہیں۔ وہ جواباً کہتے ہیں کہ تربوز کو سرخ ثابت کرنے کو اگر انجکشن لگانے والے ٹھیک ہیں تو ہم سے شکایت کیوں ہے ہر روز دو نمبردوائیاں بنانے والے پکڑے جاتے ہیں۔ وہ جیل بھی کاٹ آئے ہیں اور پھر موجودہ اسمبلی میں ان کو پارلیمنٹ ممبربنا دیکھ رہی ہوں۔
ان دنوں پارلیمنٹ میں بار بار کہا جا رہا ہے کہ ہمسایوں سے تعلقات ٹھیک کریں اب ذرا سی ہل جل افغانستان سے ہوئی ہے ۔ انڈیا سے تو جون تک کچھ ہونے سے رہا کہ مودی بھی چوتھی دفعہ کا مزا لینےکیلئے پاکستان دشمنی کیا مسلمان دشمنی میں زمینی تجارت کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔وہ جو سمجھوتہ ایکسپریس چلتی تھی وہ گزشتہ پانچ سال سے لاہور اسٹیشن پر کھڑی ہے۔ مودی تو شہریت کے قوانین بھی بدل رہا ہے، رہا ایران تووہ گیس منصوبہ جو سات سال سے التوا میں تھا اس میں ذرا پیش رفت ہوئی ہے۔ سعودی شاہ نے رمضان میں 3ارب ریال خیرات کرنے کا کہا ہے۔ درست تو نہیں مگر کہا جا سکتا ہے ’’اے خانہ برانداز چمن کچھ توادھربھی‘‘۔ غربت میں کیا شرم!
بشکریہ روزنامہ جنگ