پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ موجود ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے قیام کے بعد پہلی دفعہ ٹی ٹی پی کو افغانستان کے اندر ٹارگٹ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پاک فوج کی ان سرجیکل اسٹرائیک میں ٹی ٹی پی کا ایک اہم کمانڈر مارا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی ٹی ٹی پی کو بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ ویسے تو طالبان کی جانب سے اس حملے کے بعد کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان تنا موجود ہے۔ طالبان کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان ان کے اندر گھس کر ٹی ٹی پی کو مارنے کا فیصلہ کر لے گا۔ اس سے پہلے جب ایران نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی کوشش کی تھی تب بھی پاکستان نے پہلے ایرانی سفیر واپس بھیجا تھا۔
سفارتی سطح پر احتجاج کیا گیا لیکن جب ایران نے معافی نہیں مانگی بلکہ اپنی سرجیکل اسٹرائیک کو جائز قرار دینے کی کوشش کی تو پاکستان نے جوابی اسٹرائیک کی جو زیادہ بہتر اور موثر تھی۔ پاکستان کی جوابی اسٹرائیک واضح پیغام تھا کہ پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پاکستان کی اسٹرائیک کے بعد ایران نے صلح کے پیغامات بھیجنے شروع کر دیے اور تناؤ کو ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا ایک ہی جواب ایران کے لیے یہ سمجھنے کے لیے کافی تھا کہ پاکستان سخت جواب دینے پر یقین رکھتا ہے۔
اسی لیے ایران نے نہ صرف سفیروں کی واپسی کی خواہش کا اظہار کیا بلکہ ایرانی وزیر خارجہ تناؤ ختم کرنے کے لیے پاکستان آئے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان سے کوئی ایران نہیں گیا۔
پاکستان کو ایران سے ایک عرصہ سے شکایت رہی ہے کہ بلوچستان میں عسکری گروپوں کے لوگوں نے ایران میں پناہ لی ہوئی ہے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے ایرانی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان کی سرجیکل اسٹرائیک میں ایسے ہی عناصر کو نشانہ بنایا گیا اور ایرانی حکام نے خود تسلیم کیا کہ پاکستان کی سرجیکل اسٹرائیک میں کوئی ایرانی شہری نہیں مارا گیا بلکہ مرنے والے پاکستانی ہی تھے بلکہ ایرانی حکام یہ کہنے پر بھی مجبور ہوئے کہ ایران تحقیقات کرے گاکہ اس کی سرزمین پر یہ دہشت گرد کیسے موجود تھے۔
افغانستان کے معاملہ میں اب دو منظر نامے ہی ممکن ہیں۔ پہلا یہ طالبان پاکستان کی اس سرجیکل اسٹرائیک کو افغانستان پر حملہ قرار دیکر باقاعدہ لڑائی شروع کر دیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ مجھے نہیں لگتا، افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ باقاعدہ جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ وہ ٹی ٹی پی کے ذریعے دہشت گردی کرار جواب دے سکتی ہے لیکن افغان طالبان باقاعدہ جنگ نہیں لڑ سکتے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ افغان طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ وہ جنگ سے دور رہنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کے ساتھ جنگ ان کے مفاد میں نہیں۔ لیکن ایسا بھی نظر نہیں آتا کہ پاکستان کی سرجیکل اسٹرائیک کے بعد افغان طالبان ٹی ٹی پی کو افغانستان سے نکال دیں گے۔ ایسے بھی کوئی اشارے نہیں ہیں کہ افغان طالبان نے پاکستان کی اسٹرائیک کے بعد ٹی ٹی پی کو افغانستان چھوڑنے کے لیے کہہ دیا ہوگا۔ ایسے بھی اشارے نہیں ہیں کہ ان کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کا کوئی حکم دیا گیا ہوگا۔ ایسے بھی کوئی اشارے نہیں ہیں کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیاں بند کرنے کا کوئی حکم دیا گیا ہو ۔ ایک خاموشی ہے جو یہ پیغام دے رہی ہے کہ طالبان معاملات جیسے ہیں ویسے ہی چلانا چاہتے ہیں۔ وہ جنگ بھی نہیں چاہتے لیکن ٹی ٹی پی کو کنٹرول بھی نہیں کرنا چاہتے۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کامیاب اسٹرائیک کے بعد پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی کا مسئلہ مکمل حل نہیں ہوا۔ بلکہ مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے۔
اگر پاکستان دوبارہ اسٹرائیک کرتا ہے تو طالبان کے لیے اندرونی طور پر مسائل بڑھیں گے۔ جو لوگ پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل رکھنے کے حامی ہیں وہ مضبوط ہوں گے اور جو خراب تعلقات کے حامی ہیں وہ کمزور ہوں گے۔ اس لیے افغان طالبان کی یہ کوشش ضرور ہوگی کہ دوبارہ اسٹرائیک نہ ہو۔ دوبارہ اسٹرائیک ان کے لیے اندرونی طور پر بہت خطرناک ہوگی۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اب بیک چینل پر پاک افغان بات چیت سے مسائل حل ہوں گے۔ اسی طرح ٹی ٹی پی بھی پریشان ہوگی۔ پہلے وہ افغانستان میں خود کو بہت محفوظ سمجھتے تھے ۔
آزادی سے گھومتے پھرتے تھے ان کی نقل و حرکت کافی آزادانہ تھی۔ انھوں نے اپنے کیمپ بھی بنائے ہوئے تھے۔ لیکن اس سرجیکل اسٹرائیک کے بعد ان کے اندر ڈر پیدا ہوگیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ذرایع بتا رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اب افغانستان کے اندر مکمل محفوظ نہیں۔ وہ کسی بھی وقت نشانہ بن سکتے ہیں۔ وہ انڈر گراؤنڈ ہونے لگے ہیں۔ وہ خود اپنی سیکیورٹی کے لیے پریشان ہو گئے ہیں۔ اس لیے ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔ لیکن یہ کام ابھی ادھورا ہے۔ اب جب پاکستان نے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو افغانستان کے اندر نشانہ بنانا شروع کیا ہے تو اسے جاری رکھنا ہوگا اسے رکنا نہیں چاہیے۔ یہی درست پالیسی ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس