مغربی سرحد کے شعلے : تحریر سلیم صافی


گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ”بدقسمتی سے دہشت گردی اور انتہاپسندی ،جو سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ، یہاں کی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ۔ انہوں نے اسے فوج کے سپرد کررکھا ہے ۔تحریک طالبان کا مسئلہ جوں کا توں ہے ۔وہ اپنی تنظیم کو دوبارہ منظم کررہے ہیں۔کراچی تک یونٹ قائم کرلئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پرپولیس کی ٹارگٹ کلنگ کررہے ہیں لیکن چونکہ بفضل خدا دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی اسلئے ہم اس ایشو کو بھول گئے ہیں ۔ کچھ پتہ نہیں ان سے متعلق حکومت کی کیا پالیسی ہے ؟۔ کیا افغان طالبان کے ساتھ مل کر اس کا سیاسی حل تلاش کیا جارہا ہے یا پھر کوئی اور حکمت عملی اپنائی گئی ہے ؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ دوسری طرف بلوچ عسکریت پسند ہیں جن کا خصوصی نشانہ بیرونی سرمایہ کار بنتے ہیں۔ ہتھیار پھینکنے کی صورت میں حکومت نے ان کیلئے عام معافی کا تواعلان کر دیا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی جامع سیاسی حکمت عملی مفقود ہے۔ ان حالات میں بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنا بھی چاہےتو کیسے آئے گا اور جب تک سرمایہ کاری نہیں آتی، معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔‘‘

خلاصہ کلام یہ تھا کہ مغربی سرحد پر حالات خراب تر ہیں اور آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں لیکن چونکہ بڑی کارروائی نہیں ہوئی اسلئے ہم نے اس کو بھلا دیا ہے۔ بدقسمتی سے اس کے اگلے روز وہ بڑی کارروائی بھی ہوگئی اور میر علی میں ٹی ٹی پی نے ایک چوکی پرحملہ کرکے دو افسران اور کئی جوانوں کو کئی گھنٹے پر محیط لڑائی میں شہید کردیا ۔ اس کا بدلہ لینے کیلئے اگلے روز پاکستانی فورسز نے افغان سرحد کے اس پار کارروائی کرکے مبینہ طور پر میر علی کی کارروائی کے ذمہ داروں کو مار ڈالا تاہم ٹی ٹی پی کا دعویٰ ہے کہ ان کا کوئی لیڈر نہیں مارا گیا اور کارروائی میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین نشانہ بنے۔ اس کارروائی پر افغان وزارت خارجہ نے افغانستان کے صوبہ پکتیکا اور خوست پر پاکستانی فوج کے حملوں کے نتیجے میں مبینہ طور پرخواتین اور بچوں کی شہادت کے ردعمل میں کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے سربراہ کو طلب کرکے احتجاجی خط حوالے کیا ۔

اسلامیہ کی وزارت خارجہ نےحملوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو آگاہ کیا کہ امارات اسلامیہ افغانستان کو دنیا کی سپر پاورز کے خلاف آزادی کیلئے لڑنے کا طویل تجربہ ہے اور وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی طرح کی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتی۔ دوسری طرف پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ پاکستان کے مسلسل احتجاج کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور امارات اسلامی میں شامل بعض عناصر ٹی ٹی پی کو بطور پراکسی استعمال کررہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان افغان عوام کو بہت عزیز رکھتا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور اسلئے مسلسل ڈائیلاگ کے ذریعے امارات اسلامی پر زور ڈالتا رہا کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے ۔

مذکورہ صورت حال کو دیکھا جائے تو نہ صرف ٹی ٹی پی پاکستان کے ساتھ حالت جنگ میں ہے بلکہ اب امارات اسلامی بھی حالت جنگ کی طرف جارہی ہے ۔ بعض اطلاعات کے مطابق امارات اسلامی بھاری ہتھیار پاکستانی بارڈر کے قریب منتقل کررہی ہے ۔ دوسری طرف جس طرح پہلے کالم میں عرض کیا تھا کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ٹی ٹی پی کسی پولیس والے یا کسی فوجی کی ٹارگٹ کلنگ نہ کررہی ہو۔ گویا عملاً اس ملک کا ایک صوبہ حالت جنگ میں ہے لیکن باقی ملک کو اس جنگ کا احساس ہے اور نہ اس صوبے کو چلانے والوں کو ۔ یہاں اندرونی سیاست اور توتو میں میں کا غلبہ ہے ۔ ریاست صرف فائر فائٹ چل رہی ہے اور مسئلے کے دیرپا حل کیلئےکوئی راستہ تلاش نہیں کیا جارہا ۔ادھر جب واقعہ ہوجاتا ہے تو مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے مابین مخالفانہ بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟۔ میری ناقص رائے کے مطابق پہلی فرصت میں اس مسئلے کو توجہ دی جائے ۔ اس کو مسائل میں سے ایک مسئلہ نہیں بلکہ ام المسائل سمجھا جائے ۔ میں طاقت کے استعمال کے حق میں پہلے تھا اور نہ اب ہوں لیکن جس طریقے سے مذاکرات کئے گئے میں اس کے حق میں بھی نہیں تھا لیکن مسئلے کا حل جامع مذاکرات کو ہی سمجھتا ہوں۔ مذاکرات کی کئی شکلیں اور قسمیں ہوتی ہیں اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ مذاکرات کس کے کس کے ساتھ ہورہے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ پچھلے مذاکرات کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا تو آگے بھی مذاکرات کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلے کی تمام جہتوں کو سمجھنے والے لوگوں کی کمیٹی بنائی جائے ۔ ان کے ذریعے خفیہ اور علانیہ ہر طریقے سے مذاکرات کئے جائیں ۔ افغان طالبان کے ہاں عزت و احترام رکھنے والے افراد کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے اور ٹی ٹی پی کے لوگوں کو عزت سے جینے کا کوئی راستہ بھی دیا جائے ۔ ہمارےہاں یہ عجیب تضاد بھی پایا جاتا ہے کہ بلوچ عسکریت پسند اگر ہتھیار پھینک کر پرامن زندگی اختیار کرتے ہیں تو ہر طرف واہ واہ کی جاتی ہے لیکن جب اسلامی عسکریت پسندوں سے مفاہمت کی بات ہوتی ہے تو ہر طرف سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ