آجکل پھر ہمارے فوجی شہدا کے خلاف توہین و تضحیک آمیزمہم جاری ہے، حکومتی وزرا کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے شہدا کی توہین کی گئی ہے۔ حکومت نے ایک بیانیہ بنایا ہے کہ تحریک انصاف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہمارے شہدا کی توہین کرتی ہے۔
صدر مملکت نے شہید افسر کے جنازے میں بھی شرکت کی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف شہید افسر کے ورثا سے تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے ہیں، حکومت شہیدوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے جب کہ پاکستان میں تحریک انصاف خاموش ہے جب کہ بیرون ملک اس کے سیاسی ونگز پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
یہ بات تو درست ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت میں سے کسی نے شہیدوں کی توہین نہیں کی ہے۔ یہ سب تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر اکاؤنٹس ایسے ہیں جن میں یہ بھی پتہ نہیں چلتا یہ کس کا اکاؤنٹ ہے۔ البتہ ان کی تحریک انصاف کی حمایت واضح ہے۔ بانی تحریک انصاف کی تصویر لگی ہوتی ہے یا تحریک انصاف کا جھنڈا استعمال کیا ہوتا ہے۔
یہ اکاؤنٹس صرف شہدا کی توہین ہی نہیں کرتے بلکہ تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے کو آگے بڑھانے اور تحریک انصاف کے مخالفین کی ٹرولنگ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کو ہم تحریک انصاف کی سوشل میڈیا بریگیڈ اورٹرولنگ بریگیڈ بھی کہتے ہیں، انھیں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنے کی طاقت بھی سمجھا جاتا ہے۔لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے پاک فوج کے شہدا کی توہین کی گئی ہے۔
سانحہ لسبیلہ پر بھی یہی صورتحال سامنے آئی تھی ۔ اس کے بعد جب بھی پاک فوج کے جوان اورافسر شہید ہو ئے ہیں، تحریک انصاف کے ان حامی اکاؤنٹس کی جانب سے منفی مہم چلائی گئی ہے اور ان شہادتوں پر ایک طرح سے ایسے خوشی منائی گئی جو شاید دشمن بھی نہ منائے۔
نظر بظاہر یہی آتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت دو غلی پالیسی پر گامزن ہے۔ سانحہ نو مئی کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ہم نے نو مئی نہیں کیا۔ ہمارا نو مئی سے کوئی تعلق نہیں۔ حالیہ واقعات کے بعد ایک صورت تو یہ ہو سکتی تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت کا ایک وفد شہدا کے گھروں پر تعزیت کے لیے چلا جاتا، شہیدوں کے ورثا کے ساتھ کھڑے ہو کر اظہار یکجہتی کی جاتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بلکہ ایک خاموشی رکھی گئی۔ اس خاموشی سے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے بیانیہ کو تقویت ملتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک جمہوری سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر تنقید کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جمہوریت پسند کو ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن یہ مخالفت شہدا کی توہین تک نہیں جا سکتی، اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی مخالفت کی بھی حدود و قیود ہیں، آپ عسکری اداروں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، آپ عسکری تنصیبات پر حملہ نہیں کر سکتے۔آپ شہیدوں کی یادگاروں کی توہین نہیں کر سکتے۔ جن سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی مخالفت کی ہے، انھوں نے ان حدود کا خیال رکھا ہے۔
میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف نے جس طرح سیاسی لڑائی میں قومی سلامتی کے ایشوز پر ریڈ لائنز کراس کی ہیں، اس کا تحریک انصاف کو ہی نقصان ہو رہا ہے۔ ماضی کا چلن اب جاری ہے۔ اب بھی انھوں نے یہی کیا ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں ان کے لیے مشکلات میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ یہ بڑھیں گی۔ مگر مشکل ہے کہ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں، وہ ملک سے باہر ہیں، وہ پاکستان کے اداروں کی قانون گرفت سے باہرہیں جب کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی قیادت کہتی رہے گی کہ ہم نے تو نہیں کیا ہے۔
یہ تحریک انصاف کی ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہی ہے کہ کیا تحریک انصاف ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ جو بیرون ملک ہیں، وہ شہدا کی توہین کرتے رہیں جب کہ یہاں موجود پی ٹی آئی قیادت ہم نے ایسا نہیں کیا اور نہ کسی کو کہا کی گردان کرتے رہیں، اگر ایسا ہے تو اب یہ دو عملی چلنے والی نہیں ہے ۔ اس طرح بچنا مشکل ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس