امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی درستگی ہائی کورٹ نہیں کرسکتی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی درستگی ہائی کورٹ نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ ہی اپنی غلطی درست کرسکتی ہے، نظرثانی کرنی تھی توسپریم کورٹ میں درخواست دیتے، ہائی کورٹ اس معاملہ کونہیں دیکھ سکتی، یا توسپریم کورٹ، ہائی کورٹ کو کسی معاملہ کافیصلہ کرنے کا حکم دے، سپریم کورٹ نے فیصلہ کردیا تومعاملہ ختم اگر نظرثانی دائر کرنی تھی توسپریم کورٹ میں دائر کرتے۔پاکستان کی عوام سرکاری وکیل کو تنخواہ دیتی ہے،سرکاری وکیل کو عدالت کو مس لیڈ کرنے کے لئے تنخواہ نہیںملتی، سرکاری وکیل کا کام حقائق کو چھپانا نہیں بلکہ اگر ملزم کو فائدہ ملتا ہے تووہ حقائق بھی عدالت کے سامنے رکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنی بات کے دوران بولنے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا پر شدید برہمی کااظہار کیا اور کہا کہ کوئی آداب ہی نہیں ہیں، سٹاپ ٹاکنگ، یہ سرکاری وکیل کی عدالت کے سامنے پہلی پرفارمنس ہے۔ عدالت میں ریلیف لینا ہے کسی طریقہ سے بھی لے لو، پھر وکیل کی ساکھ تونہیں رہے گی، کیا یہ وکیل کاذاتی کیس ہے، جائز ناجائز کسی بھی طریقہ سے ریلیف لینا ہے۔ ضمانت کی درخواست چلارہے ہیں ایسا لگ رہا ہے جدوجہد کررہے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روزمختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے قتل کیس میں گرفتار محمد سلیمان کی جانب سے درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔

درخواست میں ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کی وساطت سے ریاست پاکستان اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی پیش ہوئے جبکہ غلام محمد سپال اورفاروق اختر درخواست گزار اورمدعا علیہ کی جانب سے بطور وکیل پیش ہوئے۔چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم پوائنٹس لکھ کر نوٹس کرتے ہیں، وکیل جواب دے دیںاورپڑھ کرسنادیں، عدالت میں ریلیف لینا ہے کسی طریقہ سے بھی لے لو، پھر وکیل کی ساکھ تونہیں رہے گی، کیا یہ وکیل کاذاتی کیس ہے، جائز ناجائز کسی بھی طریقہ سے ریلیف لینا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس رپورٹ اورایف آئی آر کے مطابق ہی ہوتا ہے اورکس چیز کے مطابق ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضمانت کی درخواست چلارہے ہیں ایسا لگ رہا ہے جدوجہد کررہے ہیں، جناب ، جناب کہنا چھوڑدیں، سیدھی باتیں بتائیں، جوریکارڈ پر باتیں ہیں وہ بتائیں۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست گزار کی ضمانت بعد گرفتاری منظور کرتے ہوئے انہیں ٹرائل کورٹ کے اطمیان کے مطابق ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔ جبکہ بینچ نے اپنے سوتیلے باپ کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتارملزم حنیف خان کی درخواست ضمانت بعدازگرفتار ی پر بھی سماعت کی۔ درخواست میںایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کی وساطت سے ریاست پاکستان اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی پیش ہوئے جبکہ شمس الہادی اوراصغر علی درخواست گزاراورمدعا علیہ کی جانب سے بطوروکیل پیش ہوئے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ موجودہ درخواست کا موجودہ درخواست گزار پر اپنے سوتیلے باپ کو قتل کرنے کاالزام ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیت جنرل کے پی کا کہنا تھا کہ شریک ملزم زاہد علی نے قتل کے لئے درخواست گزار سے 10لاکھ روپے لئے تھے تاہم اس نے قتل نہیں کیااورحنیف خان کو پیسے واپس کردیئے۔

چیف جسٹس کا سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملزم کادفعہ 164کابیان کیوں ریکارڈ نہیں کروایا، پاکستان کی عوام سرکاری وکیل کو تنخواہ دیتی ہے،سرکاری وکیل کو عدالت کو مس لیڈ کرنے کے لئے تنخواہ نہیںملتی، سرکاری وکیل کا کام حقائق کو چھپانا نہیں بلکہ اگر ملزم کو فائدہ ملتا ہے تووہ حقائق بھی عدالت کے سامنے رکھنا ہے۔چیف جسٹس نے اپنی بات کے دوران بولنے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا پر شدید برہمی کااظہار کیا اور کہا کہ کوئی آداب ہی نہیں ہیں، سٹاپ ٹاکنگ، یہ سرکاری وکیل کی عدالت کے سامنے پہلی پرفارمنس ہے۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 6مارچ 2024کو مدعا علیہ کو نوٹس جاری کیا گیا تھا، یہ مزید انکوائری کاکیس ہے۔ عدالت نے ملزم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری منظور کرلی۔ جبکہ بینچ نے فردوس بیگم اوردیگر کی جانب سے محمد فاروق اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے سابق جج لاہور ہائی عبادالرحمان خان لودھی اور مدعا علیہ کی جانب سے شبیر حسین بطور وکیل پیش ہوئے۔درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزارون کے والد حافظ شیر عالم نے جہلم کے گائوں چتن میں 16دسمبر1914کو غلام رسول نامی شخص سے9کنال اراضی خریدی تھی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوفریق آپس میں کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن جب تیسرا فریق درمیان میں آجاتا ہے توپھر اس کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیئے، درخواست گزاروں کے والد توامین تھے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 4مارچ2013کو درخواست گزار کے خلاف فیصلہ آیا، سول جج نے قراردیا کہ حافظ عالم شیر مسجدکے امام تھے اورانہیں مسجد سے ملحقہ زمین سے اس وقت تک بیدخل نہیں کیاجاسکتا تھا جب تک وہ مسجد کے امام رہتے، تاہم وہ شاملات دیہہ کی تین کنال 16مرلے زمین کی ملکیت کادعویٰ نہیں کرسکتے تھے،زمین کے بینیفشری کی جانب سے اپنے ہی حق میں میوٹیشن نہیں ہوسکتا تھا۔

عدالت نے اپیل خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے محمد اسلم کے لواحقین کی جانب سے مولوی محمد اسحاق کے لواحقین کے خلاف 7کنال تین مرلے زمین کے تنازعہ پر دائرپانچ درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی درستگی ہائی کورٹ نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ ہی اپنی غلطی درست کرسکتی ہے، نظرثانی کرنی تھی توسپریم کورٹ میں درخواست دیتے، ہائی کورٹ اس کو معاملہ کونہیں دیکھ سکتی، یا توسپریم کورٹ، ہائی کورٹ کو کسی معاملہ کافیصلہ کرنے کا حکم دے، سپریم کورٹ نے فیصلہ کردیا تومعاملہ ختم اگر نظرثانی دائر کرنی تھی توسپریم کورٹ میں دائر کرتے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے وکلاء کو ہدایت کی کہ وہ اگر چاہیں توایک ہفتے کے اندرمختصر تحریری دلائل جمع کرواسکتے ہیں۔