نجکاری پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت پاکستان کے نقصان کرنے والے اداروں کی صورتحال یہی ہے کہ نقصان روز بروز بڑھ رہا ہے۔جو برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے ان اداروں سے جان چھڑانا لازمی ہو گیا ہے۔
خسارے میں چلنے والے ادارے کئی ہیں لیکن آجکل پی آئی اے کی نجکاری کی بہت بات ہو رہی ہے۔ تا ہم پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر اس کی نجکاری کی مخالفت کر رہی ہے اس طرح نجکاری کو دوبارہ متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے ہمیشہ ہی ایسا ہوا ہے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے حکومتی تحویل میں موجود ائیر لائنز سے جان چھڑا لی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کافی سال پہلے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں۔ حکومت ریگولیٹر تو ہو سکتی ہے۔ لیکن حکومت خود کامیاب کاروبار نہیں کر سکتی۔
اسی لیے آج جب لوگ پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں تو یہ سوال جائز ہے کہ کیا برطانیہ کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا امریکا کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کوئی ائیر لائن چلا رہے ہیں؟ جواب یہی ہے کہ ان سب ممالک نے کئی سال پہلے اپنے اپنے ممالک کی ائیر لائنز کی نجکاری کر دی تھی۔ بھارت نے بھی سرکاری ائیر لائن کی نجکاری کر دی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ مسئلہ بن گیا ہے۔
پی آئی اے کا خسارہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے ہر حکومت اس مسئلہ سے آگاہ بھی ہے لیکن نجکاری کی سیاسی قیمت سے ڈر جاتی ہیں حکومت نجکاری چاہتی ہے لیکن اپوزیشن نجکاری کی مخالفت کرتی ہے۔ جب اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اس کے پاس بھی نجکاری کے سوا کوئی حل نہیں نظر آتا ہے۔ ہم نے پیپلزپارٹی ، ن لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کو دیکھ لیا ہے۔ کسی کے پاس بھی نقصان میں چلنے والے کسی ادارے کا کوئی حل نظر نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی اداروں میں نقصان بڑھا ہے۔
پی آئی اے کو چھوڑیں آپ اسٹیل مل کی مثال ہی لے لیں۔ جب ن لیگ نے اس کی نجکاری شروع کی تھی تو تحریک انصاف نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ اسد عمر اسٹیل مل پہنچ گئے تھے۔ اعلان کیا تھا کہ ہم اس کو چلائیں گے۔
اس کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن پھر کیا ہوا ۔ چار سال تحریک انصاف کی حکومت رہی۔ اسٹیل مل کے نقصان میں اضافہ ہوتا رہا۔ نجکاری بھی نہیں ہوئی اور نقصان بھی بڑھتا رہا۔ ملازمین گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے رہے۔ صاف بات ہے کہ اگر تحریک انصاف کے پاس کوئی پلان یا منصوبہ ہوتا تو وہ ضرور استعمال کرتے۔ لیکن شاید انھیں بھی علم تھا کہ نجکاری کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ لیکن سیاسی قیمت کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔
جب بھی کوئی حکومت اس کی نجکاری کا عمل شروع کرتی ہے تو اسکینڈل شروع ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے کوشش کی لیکن سیاسی اسکینڈل کی وجہ سے ڈر گئی۔ سب ڈر گئے کوئی بھی اپنے ذمے کوئی اسکینڈل نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے قدم بڑھانے سے ڈرتا ہے۔ تمام نقصان کرنے والے اداروں کے ساتھ یہی صورتحال ہے۔
آج پی آئی اے کی پھر وہی صورتحال ہے۔ ملازمین کو نکالا نہیں جا سکتا، جہاز خریدے نہیں جا سکتے پھر کیا کیا جائے۔ نجکاری ہی واحد راستہ ہے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نقصان سے بچنا اصل ہدف ہے۔ لیکن کوئی یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ہر کوئی نیب سے ڈرتا ہے۔
آج پیپلزپارٹی پھر مخالفت کر رہی ہے حالانکہ پی آئی اے کے زوال میں پیپلزپارٹی کا بھی حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں پی آئی اے میں ضرورت سے زائد بھرتیاں کی ہیں ۔یوں ادارے پر تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔
اب فالتو ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے۔ جیسے اسٹیل مل کے ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے،ان کو نکالنے کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ جب ن لیگ کے گزشتہ دور میں پی آئی اے کی نجکاری کی بات شروع ہوئی تھی تو کراچی میں احتجاج شروع ہوا جس کی وجہ سے معاملہ رک گیا۔
میں سمجھتا ہوں اب معاملات وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سے اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اب سیاسی قیمت کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ریاست کے پاس اب کوئی گنجائش ہے۔ اب سیاسی قیمت سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔
خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری پہلے ہونی چاہیے۔ حکومتی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ نجکاری میں کسی کو بھی دے دیں اسکینڈل تو بننا ہے۔ لوگ باتیں تو کریں گے۔ کہانیاں تو بنیں گی۔ لیکن معاملہ معیشت کا ہے۔ اس لیے ذمے داری نبھانا ہوگی۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس