سیاستدانوں کی دھن، شاطر بیوروکریسی اور جدید میڈیا … تحریر : تنویر قیصر شاہد


دلدار شاہ کو یاد آیا کہ پائیڈ پائپر کی سات سو سال پرانی جرمن حکائت سنانے کے بعد پروفیسر صاحب نے کہا تھا کہ ہر سیاستدان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی دھن بجائے کہ لوگ آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے چل پڑیں ۔

یہ الفاظ جناب ظفر محمود کے لکھے گئے تازہ ترین ضخیم ناول(فرار) سے لیے گئے ہیں ۔ ناول نگار نے جرمنی کے قدیم داستان گو کی زبانی ہم پاکستانیوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ آج بھی ہمارے ہر سیاستدان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسی دھن بجائیں کہ عوام آنکھیں بند کرکے ان کے پیچھے چل پڑیں۔

ظفر محمود صاحب کی شخصیت کی کئی جہتیں اور پرتیں ہیں ۔ آپ22گریڈ میں سینئر ترین بیوروکریٹ کی حیثیت میں وفاقی حکومت سے ریٹائر ہوئے ۔ ٹیکسٹائل، کامرس، پٹرولیم، کابینہ، انڈسٹری اور پانی و بجلی ایسی نمایاں ترین وزارتوں کے فیڈرل سیکریٹری رہے ۔ پنجاب میں ایجوکیشن سیکریٹری بھی رہے ہیں ۔
ریٹائر منٹ کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین بھی رہے اور واپڈا کے چیئرمین بھی ۔ واپڈا کے چیئرمین کے عہدے سے جناب نے از خود استعفی دے کر اِس عہدے ( جو بعض لوگوں کے لیے بڑاہی نفع بخش رہا ہے ) سے پنڈ چھڑا لیا تھا ۔ اب وہ پر سکون ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ روحانی طور پر اس لیے با مسرت ہیں کہ ان کے دامن پر کرپشن، ہیرا پھیری اور بد عنوانی کا کوئی داغ دھبہ نہیں ہے ۔یہ ایسا گرانقدر اعزاز ہے کہ جس سرکاری افسر کو یہ حاصل ہو جائے ، وہ اپنی قسمت اور کردار پر ناز کر سکتا ہے ۔

ظفر محمود صاحب چونکہ کتاب اور حرفِ مطبوعہ کے سچے عاشق ہیں، اس لیے انھیں اِس عشق کی قیمت بھی کئی بار ادا کرنا پڑی ہے ۔ مثال کے طور پر واپڈا کے چیئرمین تھے کہ کالا باغ ڈیم پروجیکٹ بارے کالم لکھنا شروع کر دیے ۔ کئی اقساط میں شایع ہونے والے یہ کالمز انگریزی میں بھی تھے اور اردو میں بھی ۔ یہ کالمز مدلل ، پر مغز اور غیر جانبدار تھے ۔ یہ مگر آبیل مجھے مار ثابت ہوئے؛ چنانچہ کالموں کی اشاعت سے وطنِ عزیز کی وہ قوتیں جو بوجوہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے مخاصمت رکھتی ہیں ،حرکت میں آ گئیں ۔ واویلا مچا ۔ ناراضیاں ہونے لگیں تو ظفر محمود نے کالم لکھنا بھی بند کر دیے اور واپڈا کی چیئرمینی کو بھی لات مار دی ۔

یہ کالمز اب کتابی شکل میں شایع ہو کر ہمارے قومی لٹریچر کی شان میں اضافے کا باعث تو بن چکے ہیں مگر مصنف کو اِس کے لیے بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ مثال کے طور پر 13مارچ 2024 کو وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے ظفر محمود کو ارسا (IRSA) کا تین سال کے لیے چیئرمین مقرر کیا تواِس اہم تقرری کا اعلان ہوتے ہی سندھ حکومت اور اِس کے وزیر اعلی ، جناب مراد علی شاہ نے وزیر اعظم صاحب سے یہ کہتے ہوئے مطالبہ کر ڈالا کہ یہ بندہ( ظفر محمود) کالا باغ ڈیم کے حق میں چونکہ کتاب لکھ کر متنازع ہو چکا ہے۔

اس لیے اِسے چیئرمین ارسا نہیں بنایا جا سکتا۔ کچھ دیگر صوبائی وزرا نے بھی اپنے وزیر اعلی کے تتبع میں ظفر محمود صاحب کے خلاف بیانات داغ مارے ؛ چنانچہ وزیر اعظم صاحب نے ظفر محمود کے تقرری آرڈر واپس لے لیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے ظفر محمود کی کتاب پڑھی ہے ، وہ شہادت دیں گے کہ اِس کتاب میں کالا باغ ڈیم کے حق میں بات نہیں کی گئی بلکہ معتدل اسلوب میں بنیادی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ وزیر اعلی سندھ نے پریس کانفرنس میں جس غیرشائستہ لہجے میں ظفر محمود کا نام پکارا، وہ کئی دلوں کو مجروح کر گیا۔

کتاب اور حرف ِ مطبوعہ کے خبط میں مبتلا ظفر محمود لکھنے لکھانے کی لت سے خود کو کبھی آزاد نہیں کر سکے ہیں ۔ ان کی یہ لت اردو ادب سے چسکا رکھنے والوں کے لیے بڑی مفید ثابت ہوئی ہے ۔ اب تک ایک ناول (23دن) اور افسانوں کا ایک مجموعہ ( دائروں کے درمیان) ان کے قلم سے سرزد ہو چکا ہے۔ ناول (23دن) میں ظفر محمود صاحب نے سماج دشمنوں اور منشیات فروشوں کے باہمی تلخ تعلق کی بات چھیڑی ہے ۔ دائروں کے درمیاں افسانوں میں مصنف نے وہ ہوشربا راگ چھیڑا ہے جسے سن کر لیو ٹالسٹائی کے افسانے یاد آ جاتے ہیں ۔ ان کی معرکہ خیز کتاب سرکار کی رہ گزر ان کی سرکاری یادداشتوں کا انمول خزانہ ہے ۔

یہ تعارفی الفاظ لکھنے کا مقصد فقط یہ بتانا ہے کہ ظفر محمود اب پاکستان کے کہنہ مشق قلم کاروں کی اولین اور زریں فہرست میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان کے قلم کی پشت پر بیوروکریسی میں گزرے کئی ماہ و سال کے تجربات بھی ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔ یہ تجربات انگبیں بھی ہیں اور آبِ اندرائن کی مانند کڑوے بھی ۔ برسوں پر پھیلے اِنہی تجربات کی اساس پر اب ظفر محمود صاحب فرار کے زیر عنوان اپنا نیا ناول قارئین کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ تقریبا 400صفحات پر مشتمل یہ ناول پاکستان میں اپنی نوعیت اور موضوع کے اعتبار سے پہلی کامیاب کوشش قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اِس میں سیاست، جاگیر داری، مذہبی خاندانوں ، بیوروکریسی اور الیکٹرانک میڈیا کی باطنی دنیا کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔

ویسے تو ماضی قریب میں اردو ادب کے جھومر جناب شوکت صدیقی نے بھی جانگلوس میں سیاست، جاگیرداری اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کو موضوع بنا کر ایک دنیا کو حیران کیا تھا، لیکن ظفر محمود کے فرار کی دنیا بالکل نئی ، الگ تھلگ اور تازہ ترین ہے ۔ ہمارے سماج میں الیکٹرانک میڈیا اور سیاست کے باہمی تعلق نے جو طاقتور شکل اختیار کر لی ہے، ظفر محمود نے فرار کو اِس کا نیوکلیس بنایا ہے ۔ اب اِس تعلق میں بیوروکریسی نے بھی جو لچ تلنا شروع کر دیا ہے ، اِسے فرار کے مصنف نے بڑی بے رحمی سے بے نقاب کیا ہے۔

ناول میں دلدار شاہ کو جاگیرداری اور سیاست کا نمایندہ دکھایا گیا ہے جب کہ مونا کی صورت میں الیکٹرانک میڈیا کی دنیا کی نمایندگی دی گئی ہے ۔ باقی کردار اِنہی دو کرداروں کی بنت کا حصہ ہیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اِس سے قبل الیکٹرانک میڈیا ، سیاست اور بیوروکریسی کے خوفناک گٹھ جوڑ پر کبھی کوئی ناول نہیں لکھا گیا ۔ فرار اِس حوالے سے بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ ظفر محمود نے جو اصطلاحات استعمال کی ہیں اور کرداروں کی باہمی کشا کش کو جس سہل اسلوب میں بے نقاب کیا ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ خود بھی کبھی کسی الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ رہے ہوں ۔

فرار ہمارے موجودہ عہد کی داستان ہے۔ اٹھارہ سو روپے قیمت کے حامل اِس ناول کو جہلم کے بک کارنر نے شایع کیا ہے ۔ ناول جتنا نقاب کشا ہے، طباعت بھی اسی طرح دلکشا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ فرار کو ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے نئے اور نوجوان وابستگان کو ضرور، بالضرور پڑھنا چاہیے۔ اِس میں ان کے لیے کئی اسباق بھی پوشیدہ ہیں۔ ناول نے ان کے لیے نئی راہیں بھی کشادہ کر دی ہیں ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس