جو قوم بھی اپنی غلطیاں نہیں مانتی وہ زوال کی طرف سفر جاری رکھتی ہے۔ آفاقی اور ابدی اصول ہے کہ جو قوم اپنی غلطیاں مانتی اور ان غلطیوں کی اصلاح کرتی ہے وہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہے۔ تضادستان میں غلطیوں پر غلطیاں ہوئیں مگر ہم ان غلطیوں کو مان کر اپنی اصلاح کرنے کو تیار نہیں۔ اسلئے ایک غلطی کے بعد دوسر ی غلطی دھرائی جارہی ہے۔ بین الاقوامی طور پر صدیوں کے ارتقائی عمل سے کچھ اصول وضع ہوئے ہیں ساری دنیا ان اصولوں کو مانتی ہے مگر ہم ہیں کہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور پوری دنیا کی سوچ کے برعکس اپنے آپ کو برحق سمجھتے ہیں۔ ہماری 76سالہ غلطیاں ہی ہماری آستین کے سانپ ہیں جو بار بار ہمیں ڈستے رہے ہیں مگر ہم ہر ڈنک کی نئی توجیہ اور تشریح پیش کرکے اپنی غلط سوچ کے سپنولیوں اور بچھوؤں کو پھر اپنی انا کا دودھ پلانا شروع کردیتے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کی مثال لے لیں وہ خواتین کی تعلیم کا استعارہ بنی، اس نے مذہبی انتہا پسندی کیخلاف مزاحمت کا علم بلند کیا بالآخر اس پر انتہا پسندوں نے فائرنگ کی وہ زخمی ہوئیں اور اسے علاج کیلئے باہر بھیج دیا گیا۔ وہی مغربی دنیا جو پاکستان کی پالیسیوں سے ناراض رہتی ہے وہی یورپ اور امریکہ جن کو ریاست پاکستان سے ان گنت شکایات ہیں، اسی دنیا نے ملالہ یوسفزئی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے کم عمری کے باوجود دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ نوبل پرائز سے نواز دیا۔ اصولا تو تضادستان اور اسکے لوگوں کیلئے یہ بات باعث فخر ہونی چاہئے مگر ہماری جھوٹی سازشی تھیوریوں نے اسے مغرب کا ایجنٹ بتا کر اسے مسترد کرنا شروع کردیا۔ ایک ریٹائرڈ افسر نے مجھے اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ مغربی دنیا ایک سازش کے تحت ملالہ کو اٹھا رہی ہے، میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ وہ سازش کیا ہے۔ اس نے یقین بھرے لہجہ میں کہا کہ اسے ایجنٹ بنا کر وہ بے نظیر بھٹو کی طرح پاکستان کی وزیر اعظم بنوانا چاہتے ہیں۔ میں اپنا قہقہہ نہ روک سکا اور کہا کہ پہلے انکے ایجنٹوں کی کونسی کمی ہے، یہاں پالے پوسے ایجنٹ کافی تعداد میں موجود ہیں انہیں ملالہ کو پالنے پوسنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری سازشی کہانیاں ہمیں بعید از عقل سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور یوں ہم نے ساری دنیا کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مغرب کو دنیا میں کوئی کام نہیں سوائے اسکے کہ وہ پاکستان کیخلاف سازشیں تیار کرتا رہے۔
امریکی صدر بل کلنٹن اور باراک اوباما دونوں پاکستان سے محبت رکھتے تھے، کلنٹن نے جنوبی ایشیا کے دورے کے دوران پاکستانیوں کو اپنی نشری تقریر میں مشورہ دیا تھا کہ مذہبی انتہاپسندی سے آپ کو نقصان ہوگا، ہم نے اس مشورے کوبھی سازش سمجھا، اسے بھارتی اور صیہونی پراپیگنڈے سے متاثر قرار دیا، لیکن کلنٹن کی ایک ایک بات سچ ثابت ہوئی۔ اسی انتہا پسندی کے اژدھے نے جب ہمیں زیر کرنا شروع کیا، ہزاروں پاکستانی اس لڑائی میں شہید ہوئے تب جا کر ہمیں ان سے جنگ کرنا پڑی جو آج تک جاری ہے، کیا ہمیں یہ غلطی تسلیم نہیں کرنی چاہئے کہ کلنٹن درست تھا اور ہم اور ہماری ریاست غلط تھی۔ صدر اوباما بھی ہمیں یہی سمجھاتے رہے کہ طالبان کی مدد نہ کرو مگر ہم اڑے رہے اب انہی طالبان سے نمٹنا ہمارے لئے مشکل ہو رہا ہے گویا اوباما درست تھا اور ہم غلط تھے مگر ہم اور ہماری ریاست غلطی مان کراسے ٹھیک کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ مشرقی پاکستان کا معاملہ لے لیں ہم نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ظلم، محرومیوں اور حقارت سے ہم کنار رکھا، مغربی پاکستانیوں کی اکثریت نے فوجی ایکشن اور وہاں قتل عام کی حمایت کی۔ آج بھی اگر کوئی اس غلطی کی نشاندہی کرے تو اسے غدار قرار دیدیا جاتا ہے ہمارے ذہنوں کی یہی غلطی ہماری اصلاح کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
مارشل لاؤں کے نفاذ پر مٹھائیاں بھی ہم ہی بانٹتے رہے ہیں۔ ایوب خان آیا تو ہر کسی نے اسے مسیحا قرار دیا۔ یحیی خان کو مرد مومن تک کے خطاب دیئے گئے۔ جنرل ضیاالحق تو خلیفہ کے درجے تک پہنچ گئے۔ جنرل مشرف روشن خیالی اور کرپٹ سیاستدانوں کا قلع قمع کرنے کا استعارہ بن گئے۔ کیا مارشل لاؤں کی حمایت کرنا بہت بڑی غلطی نہیں تھی۔ وہ جج، سیاستدان اور بیوروکریٹ جو ان آمروں کا ساتھ دیتے رہے کیا انہوں نے اپنی ان پہاڑ ایسی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔ کیا کبھی قوم سے معافی مانگی ہے؟ عمر ایوب، اعجاز الحق، اسد عمر اور محمد زبیر بڑے فخر سے سیاست کرتے ہیں حالانکہ انکے والدوں نے اسی سیاست پر بلڈوزر چلایا تھا، کیا انہیں اہل وطن اور اہل سیاست سے اپنے بڑوں کے کئے کی معافی نہیں مانگنی چاہئے؟۔
ہم نے آج تک کسی منتخب وزیر اعظم کو اپنی مدت مکمل نہیں کرنے دی کبھی مقتدرہ، کبھی عدلیہ اور کبھی دوسرے سیاستدان، کسی حکومت کو اپنے اہداف مکمل ہی نہیں کرنے دیتے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بھارت میں جمہوری عمل جاری رہا، اسی وجہ سے وہاں جمہوریت بھی ہے اور معاشی استحکام بھی۔ ہم جلد باز ہیں صبر نہیں کرتے، ہر لیڈر سے جلدی تنگ آ جاتے ہیں، اسکے خلاف ہو جاتے ہیں اور یوں کوئی بھی اپنا سیاسی ایجنڈا مکمل نہیں کر پاتا۔ اس غلطی کا مداوا یہی ہے کہ ہر منتخب حکومت کو چاہے وہ ہمیں ناپسند ہی کیوں نہ ہو، اپنی مدت مکمل کرنی چاہئے۔ پاپولر سیاسی رہنماؤں سے ہمارا سلوک بہت ہی برا رہا ہے۔ بھٹو پاپولر لیڈر تھے انہیں فوج اور عدلیہ نے ملکر پھانسی چڑھا دیا، بے نظیر بھٹو کو سرعام قتل کردیا گیا اور ریاست کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس مقبول لیڈر کی مناسب حفاظت کر سکے۔ نواز شریف، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور اب عمران خان سب کو جیلوں میں بند رکھا گیا۔ بھارت میں ہر سابق وزیراعظم کو پروٹوکول اور سکیورٹی ملتی ہے، دارالحکومت کے ریڈ زون میں گھر ملتاہے اور تضادستان میں ہر وزیر اعظم کو جیل کی ہوا ضرور کھانی پڑتی ہے۔ کیا یہ ہماری غلطی نہیں ہے؟ جس قوم کے پاپولر لیڈر جیلوں میں ڈالے جائیں وہ قوم کیسے ترقی کرے گی؟
ججوں، جرنیلوں، سیاستدانوں اور عوام کے ساتھ ساتھ ہم صحافی بھی غلطیوں میں شریک جرم رہے ہیں۔ ہم میں سے ہی ایک نے غلام محمد کو محافظ ملت اور مرد مومن کا خطاب دیا، ہم میں سے ہی ایک نے سکندر مرزا سے ساز باز کرکے مسلم لیگ کی حکومت تڑوائی تھی، ہم میں سے کئی ایک نے ایوب خان کو خوش آمدید کہا تھا، ہم میں سے ہی کئی جنرل ضیا کو مرد مومن کہتے رہے، ہمارے ہی کئی بھائی بند جنرل مشرف کو لبرلزم کا اوتار ٹھہراتے رہے، ہم میں سے کئی جمہوریت کی خامیاں اور آمریت کی خوبیاں گنواتے رہے، ہمارے ہی کئی بزرگ بھٹو کی پھانسی کے جرم میں شریک تھے اور ہمارے ہی کئی صحافی بے نظیربھٹو کے قتل کا الزام طالبان کی بجائے اوروں پر لگاتے رہے کہ طالبان کو معصوم ثابت کرسکیں۔ ہمیں بھی بحیثیت مجموعی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اب طے کرنا چاہیے کہ ہم ہمیشہ جمہوریت، میڈیا کی آزادی، انسانی حقو ق اور آئین کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
انگریزی فلاسفر ڈرامہ نگار شیکسپیئر نے کہا تھا :
THERE IS SOMETHING ROTTEN IN THE STATE OF DENMARK.
ہمیں بحیثیت قوم اپنے ذہنی خلجان سے نکل کر اپنی غلطیوں کوتسلیم کرنا چاہئے، ماضی کی غلطیوں کو مانیں گے تو مستقبل کی اصلاح کرسکیں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہیں، سب نے غلطیاں کی ہیں کسی نے کم اور کسی نے زیادہ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم سازشی کہانیاں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے اپنی غلطیاں مانیں اور پھر اصلاح کی طرف چلیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ