محمود شام اور مظہر عباس کا صحافیانہ تاریخی آئینہ : تحریر کشور ناہید


پاکستان کے 76برس سیاسی، سماجی، عدالتی اور انسانی بددیانتی ، نا انصافی، ظلم و زیادتی اور بے مہر عماموں کی توقیر کرتے اور ووٹ فروش قوم میں تبدیل ہو کر پارلیمان میں بے مقصد نعرے بازی اور حکومتیں لفاظی کرتی ہوئی 23ویں مرتبہ فنڈز مانگنے کیلئے IMF خود دیسی چکن اور دیسی گھی کے عشایئے اور قوم، انجینئر سے ڈاکٹر اور آئی ٹی ایکسپرٹ، ملک سے باہر نوکری کی تلاش میں بھاگتے بھاگتے دیکھ رہی ہوں۔ ہم جیسے بڈھے ہر روز ڈرتے ہیں کہ سادگی اور کفایت شعاری کے نام پر پنشن زدہ نوالے بھی ہمارے منہ سے نہ چھین لیے جائیں۔ افسوس صد افسوس اسلام آباد میں عورت مارچ پر پولیس دھکے دیتی رہی باقی شہروں میں عورت مارچ بہت خوب رہا۔میں نے اب تک کوئی نئی بات نہیں لکھی۔ اب جو مزید لکھونگی۔ اس میں آپ کی یادداشت کے زخم ہرے کرنے کی باتیں ہونگی۔ یہ حقیقتیں محمود شام اور مظہر عباس کی تحریروں سے کشید کی گئی ہیں۔

پاکستان کی 50سالہ تاریخ کے سارے سیاسی کرداروں کا تصور پاکستان کے حوالے سے کیا مشاہدے اور ارشادات رہے ہیں۔ جس میں وہ شخصیات بھی شامل ہیں۔ جو اپنے حروف چھوڑ کر قبر میں چلی گئیں اور بہت سی وہ جو بنگلہ دیش بنا کر، نئے ملک میں کچھ نہ دیکھ سکیں کہ وہ بھی موت کی گود میں چلی گئیں یعنی شیخ مجیب الرحمان۔

پہلے اس شخصیت کی باتیں جس کی پھانسی کو عدالت نے شہادت کہااور منصفوں کی غلطیوں نے قرار داد مقاصد سے لے کر آٹھویں ترمیم، تک جو ناگفتہ بہ فیصلے کیے ،بحران کے آخری دنوں میں کئی دوستوں کی آنکھیں پھیرنے اور رجعت پسندوں کے استعفے مانگنے والوں کے جنونی نعروں کے باوجوداس نےذ ہنی توازن برقرار رکھا ۔ جس نے کہا یہ سیاست دان بھی عجیب لوگ ہیں۔ علیحدگی میں ملیں تو ’’ہاں‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ پھر جواب میں ’’ناں‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’میرا عقیدہ ہے کہ اس ملک کے مالک، اس کے عوام ہیں‘‘۔ میں یہ پڑھ کر اپنے اندر بڑبڑائی‘‘ یہی تو اب قیدی 804کہہ رہا ہے مگر وقت نکلنے کے بعد، بھٹو صاحب نے بھی بنگال میں انتخابات کے نتیجوں پر ایسے غور نہیں کیا کہ کیا جان بوجھ کر بنگلہ دیش کو الگ ملک بننے دیا۔

ایسی بحرانی کیفیت میں مولانا مفتی محمود نے 1976میں مدارس کا دفاع کرتے ہوئے محمود شام سے کہا ’’دراصل یونیورسٹیوں سے نکلنے والے خالی الدماغ ہوتے ہیں۔ ان کو عربی ہم پڑھا دیں تو شاید اسلام آشنا ہو جائیں۔‘‘ ان کے فرزند مولانا فضل الرحمان نے مدرسوں کی بہت بڑی فوج بنا لی ہے اور جب چاہیں وہ بھی دھرنا دے ڈالتے ہیں۔بگٹی صاحب نے 1974میں انٹرویو میں کہابلوچی ایک عرصے سے مصائب برداشت کر رہے ہیں میں پھر بڑبڑائی۔ آواز اٹھانے کی سزا تو بگٹی صاحب کو صندوق میں بند لاش کی صورت میں دے دی گئی۔

جی۔ ایم۔ سید نے 1969میں انٹرویو میں کہا ’’قائد اعظم سے تعلق خاطر کا ریکارڈ میرےپاس ہے۔ سیاسی اختلافات تو سیاست کا حصہ ہوتے ہیں۔ میں پھر بڑبڑائی مجھے ایم کیو ایم سامنے دکھائی دی۔شیخ مجیب الرحمان نے 1969میں کہا ’’پاکستان کے دو مسئلے ہیں ایک آئینی ، دوسرا اقتصادی،میں پھر بڑبڑائی 76 برس سے ہر حکومت یہی کہتی رہی ہے۔

مولانا بھاشانی کا بھی 1969میں انٹرویو ہے جس میں کہا مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے لڑکے کمیونسٹ نہیں۔ میں پھر بڑبڑائی۔ بڑا بیٹا تو ماسکو نواز گروپ میں چلا گیا تھا۔ بہرحال یہ ہے خلاصہ محمود شام کے 50 انٹرویوز 50 سال کے دوران کا۔داغ ہزیمت کو مظہر عباس نے ہر چند چار سال پہ محیط کیا ہے۔ مگر یہ وہ زمانہ ہے جب یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ حکومت کس کی ہے۔ فوج کی کہ عمران خان کی کہ فیض حمید کی کہ یہ سیاسی رومانس ہو رہا ہے کہ وعدے کے مطابق میاں صاحب کو وزیر اعظم بنانے کیلئے بلایا جا رہا ہے۔ وہ ٹی وی پر لکھا ہوا پرچہ پڑھتے ہوئے بہت مغموم نظر آئے اور پھر مائیک اورسارا ملک دوبارہ شہباز شریف کے ہاتھ میں تھما کر خود مری چلے گئے اور شہباز ’’شبانہ روز‘‘ کی تکرار کرنے لگے۔مظہر نے تویہ تک کہہ دیا کہ پہلے سلیکٹر ایوب خان تھے۔ دس سال تک مارشل لا ،جمہوریت اور بنیادی جمہوریت کا منجن چلتا رہا۔

ایک کالم میں بہت بڑا مگر 76 برس سے جاری جملہ لکھا کہ ’’جو آتا ہے مہنگائی ساتھ لاتا ہے‘‘۔ آج رمضان شروع نہیں ہوا، پیاز 350روپے کلو ہو گیاہے۔ ایک اور سچ ’’دونوں جماعتیں جب اکٹھی ہو جائیں پھر بھی ماضی کو یاد رکھتی ہیں‘‘۔ یہ محبت اور نفرت ، دونوں جماعتوں کی تاریخ ہے۔ پھر بھی اب ساتھ ہیں۔ آج سیاست کے علاوہ صحافت پر جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان کو یاد کرتے ہوئے مظہر علی خان ،برنا صاحب، عثمانی صاحب، رحمن صاحب اور چھاپرا کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ان سب کا قلم حکمراںکی مدح سرائی میں نہیں بلکہ یہ بات دہراتا رہا کہ قائد اعظم کا تصور پاکستان ، جمہوری، روشن خیالی ، آزادیٔ اظہار اور قانون سب کیلئے برابر ہے۔ یہ پڑھ کر میں پھر بڑبڑانے لگی پھر اس طور اور بہت سے صحافی ملک سے باہر اور جیل میں ہیں۔ بھلا کیوں۔

اعلی عدلیہ نے 44سال بعد ایک فیصلہ نہیں۔ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ عدالتی قتل تھا۔ مظہر نے تو یہ بھی بتایا کہ آئین کی حفاظت کی ذمہ داری عدلیہ پہ تھی۔ مگر ہوا کیا، ملک توڑنے والوں کو تحفظ دیا۔

جمہوریت کا تحفہ NRO کی شکل میں وقتاً فوقتاً تقسیم ہوتا رہا۔ قیدی 804نے تو اپنی نا تجربہ کاری، ناقص پالیسیوں پہ صاف کہہ دیا کہ جو کچھ میں کرتا رہا، وہ تو باجوہ اورفیض کے کہنے پر کیا۔ میں پھر بڑبڑائی 8 مہینے سے جیل میں وفا داریاں بدلنے کے تماشے کے باوجود، وہی بے ڈھنگی رٹ جاری ہے۔

جنرل مشرف کے طویل دور حکمرانی کو چھوڑ کر، جب وہ مرنے کیلئے پاکستان کی زمین کے متلاشی تھے، تو پہلے تو مظہر نے لاپتہ افراد کے مسئلےکی شدت پہ لکھا اور یہ بھی بتایا کہ ان کے دور میں پچاس سے زائد صحافی مارے گئے۔ ایک کیس میں تو صحافی کی بیوہ بھی ماری گئی۔آخر میں پڑھتے ہوئے عارف علوی کے ذکر پہ میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ رخصت ہوئے تو نہ میڈیا نے کور کیا نہ خبر آئی ۔کیا بے بسی ہے کہ اس وقت میڈیا نئے آنے والوں کیلئے اتنے کیمرے آن کیے کہہ رہا تھا۔

’’آنے والے دور کی ہلکی سی اک تصویر دیکھ‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ