مودی کا دورہ سرینگر اور انتخابی بگل … تحریر : افتخار گیلانی


بھارت میں جلد ہی عام انتخابات کابگل بجنے والا ہے ۔امید ہے کہ اپریل اور مئی میں کئی مرحلوں میں ان کو مکمل کیا جائیگا۔ ویسے تو حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہمیشہ ہی انتخابی کمپین کے موڈ میں رہتی ہے مگر اس بار 7 مارچ کو سرینگر کے بخشی سٹیڈیم میں عوامی جلسہ سے خطاب کرکے وزیر اعظم نریند ر مودی نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ووٹروں کو لبھانے کیلئے کشمیر کا بھرپور استعمال کیا جائیگا۔ 2019کے انتخابات میں پاکستان کو سبق سکھانے کو انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ گو کہ بھارت کے وزرا اعظم سرینگر آتے ہی رہتے ہیں، مودی کے پیشرو من موہن سنگھ نے اپنے دس سالہ دو ر اقتدار میں چار بار سرینگر کا دورہ کیا۔ مودی نے اس سے قبل 2015میں اس وقت کے وزیر اعلی مفتی محمد سعید، جن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ انہوں نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی، کی معیت میں سرینگر میں عوامی ریلی سے خطاب کیا تھا۔مگر اس بار مودی جی کے دورے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ان کا سرینگر کا پہلا دورہ تھا۔ 1983 میں کانگریس نے جب فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے خلاف انتخابات میں پوری طاقت جھونک دی گئی تھی تو اس انتخابی مہم کی کمان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خود ہی سنبھالی تھی۔ وہ ایک کھلی جیپ میں ہمارے گھر کے سامنے سے ہی گزر کر جلسہ گاہ میں پہنچیں۔ مودی کی ریلی کے حوالے سے جموں و کشمیر روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ایک عہدیدار نے خود اعتراف کیا کہ شرکا کو لے جانے کیلئے 900 سرکاری بسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس سے قبل یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ تقریبا 7000 سرکاری ملازمین، اساتذہ اور جے اینڈ کے بینک کے عملے کو ریلی میں شرکت کا حکم دیا گیا تھا، انہیں فجر سے پہلے مختلف مخصوص جگہوں پر جمع ہونے کو کہا گیا تھا، جہاں سے ان کو بسوں میں لاد کر سٹیڈیم پہنچایا گیا تھا۔ ان میں سے 145 بسیں بارہ مولہ ضلع سے لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے وقف کی گئی تھیں۔ جس طرح ماضی میں اندرا گاندھی کے دور میں کانگریس کو شوق چرایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے وادی کشمیر سے سیٹیں جیت کر ایک طرح کا پیغام دیا جائے، وہی شوق اب مودی کے دور میں بی جے پی نے پال رکھا ہے۔ وادی کشمیر میں انٹری کیلئے کانگریس بھی اپنی بھر پور طاقت جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ کی سیٹ حاصل کرنے کیلئے لگاتی تھی، بی جے پی بھی اسی سیٹ کو حاصل کرنے کئے پر تول رہی ہے۔ کشمیر میں عوام کی ا س دورہ کے تئیں دلچسپی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اس کو ایک سیاسی عمل کے احیا کا ذریعہ سمجھتے تھے اور سیاسی گٹھن سے چھٹکارہ چاہتے تھے۔ 1987کے اسمبلی انتخابات میں دھاندلیوں کے بعد عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتبار اٹھ گیا تھا اور ووٹر ٹرن آؤٹ عدم دلچسپی اور آزادی پسند پارٹیوں کے بائیکاٹ کال کی وجہ سے بہت ہی کم ہوتا تھا ۔ مگر پھر بھی حکومتی عہدوں جو افراد براجماں ہوتے تھے، وہ کسی حد تک ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے تھے۔ 2018کے بعد یعنی پچھلے چند سال سے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو مرکزی بیورو کریسی چلا رہی ہے۔ اس وقت 20اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں میں سے صرف آٹھ ہی مقامی ہیں۔ خطے کے 112اعلی پولیس افسران میں صرف 24مقامی ہیں، ان میں سے بھی تین ڈیپوٹیشن پر باہر ہیں۔ جموں و کشمیر کو چھ پارلیمانی نشستوں میں سے تین وادی کشمیر ، دو جموں اور ایک لداخ کیلئے مختص کی گئی تھی۔ چونکہ اب لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے اس لئے یہ سیٹیں اب پانچ ہی رہ گئی ہیں۔ 2018 میں ہونے والے پنچایتی انتخابات کا نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ وہ وزیر اعظم سے شق 370 اور 35-A کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی چاہتے تھے۔ اس وجہ سے بی جے پی نے غیر متعلقہ افراد کو کھڑا کرکے اور ان کو جتوا کر سیاسی کارکنوں کی ایک نئی پود پیدا کی، جو اب ا نکو چیلنج دے رہے ہیں۔ گو کہ ان میں سے کئی تو مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔اس وقت ان دو بڑی مقامی پارٹیوں کے علاوہ سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس بھی میدان میں ہے۔ سابق ممبر اسمبلی ا نجینئر رشید، جو پچھلے پانچ سالوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں ہیں، کی عوامی اتحاد پارٹی بھی انتخابا ت میں اترنے کیلئے پر تول رہی ہے۔ یعنی بی جے پی سمیت سات پارٹیاں انتخابات میں قسمت آزمائی کریں گی۔ چونکہ بی جے پی جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ سیٹ پر نظریں ٹکائے ہوئے ہے، اس لئے حد بندی کمیشن کے ذریعے اس کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں اب جموں ڈویژن کے دو اضلاع یعنی راجوری اور پونچھ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اضلاع اس سے قبل جموں۔توی سیٹ کا حصہ ہوتے تھے۔۔ ریاستی ضلع کو ادھم پور سیٹ سے الگ کر کے جموں حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔اسی طرح شوپیان ، جو جنوبی کشمیر کے بالکل وسط میں ہے، کو سرینگر کی سیٹ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس کی سرینگر حلقہ کے ساتھ بارڈر ہی نہیں ملتا۔ اننت ناگ کو راجوری ۔پونچھ سے ملانے کا واحد ذریعہ شوپیان کے راستے مغل روڈ ہے۔ یہ راستہ سردیوں میں بند رہتا ہے ۔ کسی بھی امیدوار کو اسی انتخابی حلقہ کے پیر پنچال کے دوسری طرف کے علاقوں کی طرف کمپین کیلئے جانا ہو تو پہلے ڈوڈہ ، پھر ادھمپور او ر پھر جموں یعنی تین اضلاع کو کراس کرکے اپنے حلقہ کے دوسری طرف پہنچ سکتا ہے۔ جنوبی کشمیر ایک واحد ایسا خطہ ہے، جو خالصتا کشمیری نژاد نسل پر مشتمل تھا۔ ورنہ چاہے سینٹرل کشمیر ہو یا شمالی کشمیر ، اس میں دیگر نسل کے افراد بھی آباد ہیں۔ اب پونچھ ، راجوری کو شامل کرکے اس میں گوجر اور پہاڑی آبادی کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ کشمیر ی آبادی کے اثر و رسوخ پر لگام لگائی جائے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب اس حلقہ کی کل 26لاکھ 31ہزار کی آبادی میں 14لاکھ80ہزار کشمیری یعنی 56.25فیصد، گوجرو بکروال 19.81فیصد ، پہاڑی 19.84فیصد، ڈوگرہ 0.47فیصد اور پنجابی 0.49فیصد ہونگے۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ حال ہی میں پہاڑی آبادی کو شیڈول ٹرائب (ST) کی فہرست میںشامل کرنے سے یہ آبادی یکمشت اس کے امیدوار کو ووٹ کریگی۔ پہلے یہ سہولیت صرف گوجربکروال کمیونٹی کو ہی مہیا تھی، جو پسماندہ قوم تصور کی جاتی تھی۔ اس سہولت کی وجہ سے پہاڑی کمیونٹی ، جو جموں و کشمیر کی آبادی کا سات فی صد یعنی کل 9.7لاکھ ہیں، کیلئے اسمبلی، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہونگی۔ مگر اس کی وجہ سے گوجر بکروال کمیونٹی ناراض ہے، کیونکہ ابھی تک وہ اکیلے ہی ان نشستوں کی دعویدار تھی۔ خیر سیاسی مبصرین بھی خبردار کر رہے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک کسی خطے کو سیاسی عمل سے دور رکھنا، خطرناک عوامل کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ کشمیر میں سبھی روایتی سیاسی قوتوں کی ایک طرح سے زبان بندی کرکے ان کو بے وزن کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میں واقعی ایک امن ہے، مگریہ قبرستان کی خاموشی ہے۔ اگر اطمینان کی خاموشی درکار ہے تو اسکے لئے سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی زمین بھی واپس دینی ہوگی اور مسئلہ کے دیرپا حل کیلئے کوششیں بھی کرنا پڑیں گی۔

بشکریہ روزنامہ 92