کشمیری حریت پسند رہنما قیوم راجہ  بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی ہٹ لسٹ پر آگئے


 اسلام آباد(صباح نیوز) برطانیہ میں 1984 میں مہاترے قتل کیس  کے مرکزی کردار قرار دیے گئے کشمیری رہنماقیوم راجہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی ہٹ  لسٹ پر آگئے ہیں ۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں  نصف درجن سے زیادہ کشمیری حریت پسند رہنما راولاکوٹ ، کراچی ، پشاور، اسلام آباد اور سیالکوٹ میں گزشتہ ایک سال کے دوران   بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں ۔ آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے کھوئی رٹہ علاقے  کے رہائشی   راجہ  قیوم ان دنوں عارضی طور پر میرپور میں مقیم ہیں ، گزشتہ دنوں ان کے قتل کی ایک کوشش ناکام ہو گئی ہے ۔

قیوم راجہ   نے صبا ح نیوز کو بتایا کہ 29 فروری کو میرپور میں نامعلوم  حملہ آووروں نے  ان کے فلیٹ کا دروازہ توڑ کر اندر آنے کی کوشش کی، میں صورت حال کا  ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر اپنے دوستوں اور  مقامی پولیس کو اطلاع کر دی  جس کے نتیجے میں حملہ آوور بھاگ گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ  ایس ایس پی میرپور مسٹر کامران نے اس واقعے کو بڑی سنجیدگی سے لیا  اور ایس ایچ کو مناسب اقدامات کی ہدایت بھی کی تھی ۔ موقع پر پہنچنے والی پولیس نے قیوم راجہ کو باضابطہ درخواست دینے کا مشورہ دیا مگر پولیس نے انہیں تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ مختلف رہنمائوں کی ہلاکتوں کی تفصیل بتاتے ہوئے اپنی حفاظت آپ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

قیوم راجہ کے ساتھ جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا  کہ ایس ایس پی کوٹلی میر محمد عابد اور ایس ایس پی میرپور مسٹر کامران نے اس واقعے کو بڑی سنجیدگی سے لیا تھا اس لیے انہوں نے میڈیا کو بیان جاری نہیں کیا تھا لیکن اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے آزاد کشمیر پولیس کے وسائل اور اختیارات بڑھانے اور تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  قیوم راجہ نے یہ بھی بتایا کہ انہیں اس واقعہ کے حوالے سے مزید جو معلومات ملی ہیں وہ پولیس کو دے دی گئی ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر حکومتوں کو حریت پسندوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے  قیوم راجہ  نے ایک بھارتی سفارت کار کے قتل کے الزام میں برطانوی جیل میں اکیس سال سے زائد عرصے کی قید کا ٹی تھی ۔برطانیہ کی ایک جیل سے رہائی کے بعد انھیں  مئی 2005 میں ملک بدر کرکے پاکستان بھیج دیا گیا تھا ۔انکے ہمراہ تین برطانوی اسکیورٹی اہلکار تھے جنھوں نے  راجہ قیوم کو اسلام آباد ائرپورٹ پر پاکستانی حکام کے حوالے کیا تھا۔بعد ازاں انہیں  آزادکشمیر کے جنوبی ضلع کوٹلی میں واقع انکے گاوں پہنچایا گیا تھا ۔راجہ عبدالقیوم خان کی سزا دو مارچ  2005کو پوری ہوئی تھی اور برطانوی پے رول بورڈ نیپندرہ مارچ کو انکی رہائی کا حکم سنایا تھا لیکن سفری دستاویزات تیار نہ ہونے کے باعث انھیں مزید دو ماہ جیل میں رہنا پڑا تھا۔پاکستان کی حکومت کی جانب سے سفری دستاویزات فراہم کئے جانے کے بعد انھیں برطانیہ کی سفک کونٹی میں قائم ہائی پوائنٹ جیل سے رہا کرکے لندن لایا گیا تھاجہاں سے انھیں پاکستان بھیج دیا گیا تھا ۔

راجہ قیوم سمیت چھ افراد پر الزام تھاکہ انھوں نے خودمختار کشمیر کے حامی  جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ  کے بانی ا مقبول بٹ کو بھارتی جیل سے رہائی کے لئے فروری 1984 میں برطانیہ میں تعینات  بھارتی اسسٹنٹ ہائی کمشنر رویندارا مہاترے کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا تھا۔مہاترے کو چار فروری کو برمنگھم سے اغوا کیا گیا تھا اور تیسرے روز  انکی لاش برآمد ہوئی تھی اور گیارہ فروری 1984 کو مقبول بٹ کو دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی ۔22 فروری 1984 کو راجہ قیوم کو سکاٹ لینڈ سے آئرلیڈ جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا برطانوی جیل میں اکیس سال سے زائد عرصہ گذارنے کے بعد انھوں نے  رہائی پائی جبکہ ان کے دیگر ساتھی پہلے ہی برطانیہ میں اپنی سزا پوری کر کے رہا ہوچکے تھے ۔

ادھر جموں کشمیر انڈیپینڈینس الائنس کے رہنما بیرسٹر آصف خان کی طرف سے ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور یہومن رائٹس واچ کے نام لکھے گے ایک خط میں 29 فروری کو میرپور میں حریت پسند رہنما قیوم راجہ کے فلیٹ پر رات کی تاریکی میں  نامعلوم افراد کے حملہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔۔ الائنس کی طرف سے جاری خط میں آزاد کشمیر میں اور پاکستان میں آزادی پسند کشمیریوں اور کینیڈا میں قتل کیے جانے والے سکھ رہنما کا بھی زکر کیا گیا۔ یاد رہے کہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت پر ایکسٹراٹیریٹوریل کاروائیوں کا الزام لگا کر بھارتی سفیر کو کینیڈا سے نکال دیا تھا۔ متعدد کشمیری رہنماں نے  سرحد پار سے کروائی جانے والی ایسی وارداتوں کے الزام کے حوالے سے کہا ہے کہ مقامی عناصر کے تعاون کے بغیر سر حد پار سے کوئی کام ممکن نہیں۔ اس لیے پاکستان اور آزاد کشمیر حکومتوں کو حریت پسندوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔