سری نگر: امریکی نشریاتی ادارے وی او اے کے مطابق بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو اپنے دورہ سرینگر کے دوران اعلانات سے مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش کی اورہندو آبادی کی پوزیشن کو مزید مستحکم بنانے کے لیے اعلانات بھی کیے ۔ ادھر کشمیری جماعتوں کا کہنا ہے کہ آمرانہ جموں و کشمیر حکومت نے وزیرِ اعظم مودی کو سننے کے لیے ہجوم کو اکٹھا کرنے کی خاطر اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے ہیں کیوں کہ بی جے پی جموں و کشمیر میں سرکاری انتظامیہ کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
وی او اے کے مطابق سری نگر میں ایک جلسے سے خطاب میں جموں و کشمیر اور بھارت کے کئی دوسرے علاقوں کے لیے چھ ہزار چار سو کروڑ روپے مالیت کے تعمیراتی منصوبوں کا اعلان کیا۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کے اعلانات سیاسی حکمتِ عملی ہے جب کہ بعض کا کہنا ہے نریندر مودی بھارتی سیاست پر اس قدر حاوی ہوچکے ہیں کہ جموں و کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں کے لیے ان کے ساتھ صلح کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔وزیرِ اعظم مودی نے بخشی اسٹیڈیم میں جمعرات کو جلسے سے خطاب کے دوران جن منصوبوں کا اعلان کیا ان میں سرینگر کی درگاہ حضرت بل کی تزئین و آرائش کا منصوبہ بھی شامل ہے۔شہر کی شہرہ آفاق جھیل ڈل کے مغربی کنارے پر واقع حضرت بل درگاہ سے کشمیری مسلمان والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔درگاہ میں پیغمبرِ اسلام کی داڑھی کا ایک بال جسے ‘موئے مقدس’ کہا جاتا ہے وہ موجود ہے جس کی زیارت مذہبی تہواروں کے موقع پر کرائی جاتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے درگاہ حضرت بل کی مربوط ترقی کے منصوبے کا اعلان کر کے دراصل جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی ہے۔جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے اور وزیرِ اعظم مودی نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ رمضان کا مقدس مہینہ چوں کہ اگلے چند روز میں شروع ہونے والا ہے اس لیے وہ کشمیر کی سرزمین سے ملک کے عوام کو پیغامِ تہنیت بھیج رہے ہیں۔بعض مبصرین اسے بھارت میں رواں برس ہونے والے عام انتخابات کے پس منظر میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی کشمیر سمیت ملک کے مسلمانوں میں اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کی ایک کوشش سمجھتے ہیں۔وزیرِ اعظم مودی نے کشمیری برہمن ہندوں، جو کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں، کو بھی ان کے اہم مذہبی تہوار شیوراتری پر مبارک باد دی۔ یہ تہوار جمعے کو منایا جا رہا ہے۔سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی نے سرینگر کے جلسے سے جہاں ملک کے مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش کی وہیں انہوں نے اکثریتی ہندو آبادی میں اپنی اور اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پوزیشن کو مزید مستحکم بنانے کے لیے حالیہ عرصے میں کچھ اعلانات کیے ہیں۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد وزیرِ اعظم مودی کا وادی کشمیر کا یہ پہلا دورہ تھا۔انہوں نے اپنی تقریر کے دوران دفعہ 370 کی منسوخی کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور دعوی کیا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی اب قسمت بدل گئی ہے اور علاقہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور سماج کے کئی کمزور طبقوں کے ساتھ نا انصافیوں کا باعث تھی۔حزبِ اختلاف نے الزام لگایا ہے کہ وزیرِ اعظم کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت نے دھونس اور دبا سے کام لیا اور سرکاری ملازمین کو جلسے میں شرکت کرنے پر مجبور کیا۔سابق وزیرِ اعلی اور اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے مودی کی سرینگر آمد سے ایک دن پہلے سماجی ویب سائٹ ‘ایکس’ پر لکھا تھا کہ “آمرانہ جموں و کشمیر حکومت نے وزیرِ اعظم مودی کو سننے کے لیے ہجوم کو اکٹھا کرنے کی خاطر اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے ہیں کیوں کہ بی جے پی جموں و کشمیر میں سرکاری انتظامیہ کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی۔جموں وکشمیر کی سابق وزیرِ اعلی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے وزیرِ اعظم کی تقریر پر اپنے ردِ عمل میں کہا کہ وزیرِ اعظم مودی دفعہ 370 کی غیر قانونی منسوخی کے نام نہاد فوائد کی نمائش کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور یہ یہاں کے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے محبوبہ مفتی نے الزام لگایا کہ نریندری مودی بھارت میں رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ بٹورنے کے لیے کشمیر کا نام اچھال رہے ہیں۔ایک اور بڑی اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کی تقریر مایوس کن تھی کیوں کہ انہوں نے وہی باتیں دہرائیں جو وہ گزشتہ پانچ برس سے کہتے آ رہے ہیں۔ساگر کے بقول تمام کھوکھلے دعوں کے باجود وزیرِ اعظم مودی کو جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کی جرات نہیں ہو رہی۔ لوگوں کو بیتابی کے ساتھ انتظار تھا کہ مودی جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا اعلان کریں گے اور یہ وعدہ بھی کریں گے کہ یہاں ستمبر سے پہلے ایک جمہوری حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جائے گا۔لیکن انہوں نے تمام توقعات اور امیدوں پر پانی پھر دیا۔کانگریس پارٹی کے سینئر نائب صدر (جموں و کشمیر) رویندر شرما نے کہا “لوگوں کو امید تھی کہ وزیرِ اعظم ان کی تشویش کے مسائل کا ذکر کریں گے اور ان کے حل کے لیے اقدامات کا اعلان بھی۔لیکن انہوں نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔”