مریم نواز…’’زندانِ اقتدار کی قیدِ بامشقت‘‘ : تحریر عرفان صدیقی


وہ اسلام آباد کی ایک گرم مرطوب صبح تھی۔15 جولائی 2017اور ہفتے کا دن۔ ہماری تاریخ کی سب سے طاقتور اور خونخوار جے۔آئی۔ٹی نے وزیراعظم کی بیٹی مریم نوازشریف کو پانامہ تحقیقات کے حوالے سے طلب کررکھا تھا۔ مجھے رات کو مریم کا فون آیا۔ ’’انکل! آپ نے صبح 9بجے آنا ہے۔ میری پیشی ہے۔‘‘وزیراعظم ہاؤس کے رہائشی حصّے کے ڈرائنگ روم میں چھوٹی سی محفل جمی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کے چہرے پر نامطلوب موسموں کی سنولاہٹ بکھری ہوئی تھی۔ ذرا دیر بعد مریم بھی آ گئی۔ روایتی مسکراہٹ کے ساتھ ہشاش بشاش۔ سب سے گرم جوشی سے ملی۔ طے پایا تھا کہ وہ پیشی کے بعد میڈیا سے بات بھی کرے گی۔ مریم نے ایک رائٹنگ پیڈ سنبھالا اور نوٹس لینے لگی۔ پریس سے اُس کے پہلے باضابطہ مکالمے کے بنیادی نکات کا کلیدی جُملہ تھا __ ’’مجھے اپنے باپ کی کمزور ی سمجھنے والے غلطی پر ہیں۔ انشاء اللہ میں اپنے والد کی طاقت بن کر دکھاؤں گی۔‘‘ جانے لگی تو بیگم کلثوم نواز قرآن مجید اٹھا لائیں۔ بیٹی پہ اُس کا سایہ کیا۔ بیگم صاحبہ کی آنکھوں میں شبنم سی جھلکنے لگی تھی۔ مریم ہنستی مسکراتی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی جو اس کا بھائی چلا رہا تھا۔ گاڑی پورچ سے نکل گئی تو ہم سب ہولے ہولے قدم اٹھاتے ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑے۔ میں نے میاں صاحب سے کہا __ ’’مجھے لگتا ہے آج مائنس وَن کرنے والوں نے پلَس وَن کردیا ہے۔‘‘

مریم پیشی کے بعد پریس سے اولیں رابطے کے دوران اعتماد میں گندھے غیرمتزلزل لہجے میں بتا آئی ،’’مجھے نوازشریف کی کمزوری سمجھنے والے جان لیں، میں انشاء اللہ اُس کی طاقت بن کر دکھاؤں گی۔‘‘ مریم نے اس جملے کو اپنا منشور حیات بنالیا۔ پُریقین بیٹی نے پھر کبھی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا۔ ہر اُفتاد اُس کے عزم کی دھار تیز کرتی، ہر امتحان اُس کی ثابت قدمی کو مہمیز کرتا، تُندیِٔ بادِ مخالف کا ہر تھپیڑا اُس کے پروں کو نئی طاقتِ پرواز دیتا چلا گیا۔ ماں باپ نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ اُن کا کوئی بیٹا یا بیٹی سیاست میں آئے۔ بیگم صاحبہ تو سختی سے چاہتی تھیں کہ نوازشریف سے شروع ہونے والی سیاست، اگلی نسل کو منتقل ہوئے بغیر نوازشریف پر ہی ختم ہوجائے۔ میں نے جب بھی مریم کے سیاست میں آنے کے موضوع پر بات کی، میاں صاحب نے سرد مہری سے ٹال دیا۔ ایک دفعہ کہنے لگے ,’’صدیقی صاحب ! آپ دیکھ ہی رہے ہیں ہماری سیاست کا کیا حال ہوچکا ہے۔ میرا دِل نہیں چاہتا کہ مریم اِس کا حصہ بنے۔‘‘ پروجیکٹ عمران کی ’’معجون مرکب‘‘ کا ’’کشتۂِ فولاد‘‘ بننے سے قبل جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ، مریم کی موجودگی میں، اکثر وزیراعظم کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ مریم کو وزیرِخارجہ بنادیا جائے۔ پانامہ فیصلے کے بعد نوازشریف نااہل قرار پائے تو اُن کے حلقے این۔اے120میں ضمنی انتخابات کے لئے ٹکٹ کا سوال اٹھا۔ یہ اگست 2017ءکے پہلے ہفتے کا ذکر ہے۔ میاں صاحب اور بیگم صاحبہ مری میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مجھے اور پرویز رشید کو بلایا۔ کھانے کی میز پر ضمنی انتخاب اور متوقع امیدوار کا ذکر آیا۔ میں نے تجویز پیش کی کہ مریم کو موقع دیں۔ پرویز نے بھی تائید کی۔ میاں صاحب نے سُنی اَن سُنی کردی۔ بعدازاں یہ ٹکٹ بیگم کلثوم نواز کو دے دیا گیا۔

اقبال نے کہا تھا ’’کہ فطرت خودبخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی‘‘ کیا عجیب اتفاق ہے کہ اُسی ماں کی شدید علالت اور اُسی باپ کی سیاسی نااہلیت بیٹی کو گھر سے نکال کر خارزارِ سیاست میں لے آئی۔ بیگم صاحبہ انتخابی مہم چلائے بغیر علاج کے لئے لندن چلی گئیں تویہ بارِگراں مریم کے کندھوں پہ آگیا۔ اُس نے کمال ہمت اور ہنرمندی سے والدہ کی انتخابی مہم چلائی۔ یہ کرشمہ ساز بارگاہوں کی کرشمہ سامانیوں کا عہد تھا۔ مریم کے سامنے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے لیکن وہ عملی سیاست کے پہلے کٹھن امتحان میں سرخرو ٹھہری۔

جولائی 2019ءمیںاحتساب عدالت نے سزائیں سنائیں تو مریم اپنے والد کے ہمراہ لندن میں تھی۔ بیگم کلثوم نواز کینسر کے موذی مرض سے فیصلہ کن جنگ لڑ رہی تھیں۔ ڈاکٹر مایوس ہوچکے تھے۔ میاں صاحب کے بلانے پر جب میں لندن پہنچا تو ہسپتال کے چھوٹے سے کمرے میں خاندان کے پانچ چھ لوگ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ فضا میں موت کی بُو باس رچی تھی۔ میاں صاحب نے موضوع کشائی کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ کلثوم کو اس حال میں کیسے چھوڑ جائیں؟‘‘ سب کی رائے پر بجا طورپر جذباتیت کا غلبہ تھا۔ مریم کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں لیکن وہ بولی ،’’ابو جی! زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں امّی کو خدا کے سپرد کرکے واپس جانا چاہیے۔‘‘ باپ کی طاقت بننے والی بیٹی کی بات مان لی گئی۔ واپسی پر دونوں کو اڈیالہ جیل کی دوکھولیوں میں بند کردیا گیا جو اتنی دُور دُور تھیں کہ ایک پکارے تو دوسرے تک آواز نہ پہنچے۔ انہی کھولیوںمیںقید نوازشریف کو اپنی رفیقہ حیات اور مریم کو اپنی ماں کے انتقال کی خبرملی۔ مریم نے جیل بھی بہادری سے کاٹی اور والد کی عدم موجودگی میں تھکی ہاری مسلم لیگ (ن) کے تنِ نیم جاں میں زندگی کی لہر دوڑا دی اور حقیقی معنوں میں عوامی لیڈر بن کر اُبھری۔

حفیظ جالندھری نے کہا تھا

حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے

بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

نوازشریف کی بیٹی ہونا بجا لیکن مریم موروثیت کے دبیز مخملی قالین پر چلتی ہوئی پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ نہیں بنی۔ اُسے گھنے دلدلی جنگل کی خاردار جھاڑیوں سے راستہ بنانے کے لئے بڑے جتن کرنا پڑے ہیں۔ تاہم اُسے پانامہ جے۔آئی۔ٹی کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے اس کی سیاسی تاجپوشی کی۔ ’’دوسالہ محنت‘‘ کی دہائی دینے والوں کی ریاضت کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے مائنس وَن کرتے ہوئے ’’پلَس وَن‘‘ کردیا۔ نیب کے مقدموں، سینکڑوں عدالتی پیشیوں اور کال کوٹھڑیوں کا اہتمام کرنے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے اس کی کشتِ سیاست میں استقامت کے بیج بوئے۔ عمران خان کی پیہم سنگ زنی کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے کمین گاہ کے زہرآلود تیروں کا رُخ اُس کی طرف موڑ کر اس کا قد بالا کیا۔ تحریک انصاف کی سپاۂِ دُشنام کو نہیں بھولنا چاہیے جس کی حیا باختہ گالیوں نے اُسے اپوزیشن کی توانا علامت بنادیا۔ اور سب سے بڑھ کر پارٹی کے اُن’’ اَنکَلز‘‘ کے احسان کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوںنے اسے بہت بڑا بنا دیا۔

اب ’’زندانِ اقتدار‘‘ میں مریم کی پانچ سالہ قید بامشقت کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ اُس کی زندگی کا سب سے کڑا امتحان ہے۔ پنجاب کے تیرہ کروڑ عوام کی ’’فل کورٹ‘‘ اسکے کارِجہاں بانی کے ہر پہلو کا جائزہ لے رہی ہے۔ اللہ اُسے سرخرو فرمائے۔

جے۔آئی۔ٹی کے کوئی ساڑھے چھ برس بعد، 26فروری 2024ء کی خوشگوار سی شام مریم وزارت اعلیٰ کا حلف لے کر جھکتے ہوئے اپنے والد سے ملی اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ ایسا ہی بوسہ اُس نے 15جولائی 2017ء کو جے۔آئی۔ٹی پیشی پر جاتے ہوئے دیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میاں صاحب کے چہرے پر آج بھی بشاشت کی شفق نہ تھی۔ میری آنکھوں میں ساڑھے چھ سال پہلے والا منظر جاگ اٹھا۔ بیگم کلثوم نواز اپنی بیٹی پر قرآن کریم کا سایہ کئے کھڑی تھیں۔ لمحہ بھر کے لئے میرے دماغ میں ایک بے ربط سے خیال کا کوندالپکا۔ نواز اور مریم کو معدوم کرنے والی لشکر گاہوں اور عدل گاہوں کے سوختہ بخت کردار اس وقت کہاں بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے ہونگے؟

بشکریہ روزنامہ جنگ