شاہ حسین، پنجاب اور عورت راج : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


مریم نواز کی صورت یوں تو پنجاب کو صدیوں بعد عورت کی سربراہی نصیب ہوئی ہے مگر پنجاب کی خوش قسمت اور سرسبز فضاؤں میں عورت کو ہمیشہ معتبر مقام حاصل رہا ہے۔ عورت نے ہر محاذ پر کسی نہ کسی حوالے سے فیصلہ ساز کردار نبھایا ہے جس کی گواہی رومانی داستانوں، سیاسی کہانیوں اور سماجی رویوں میں بخوبی موجود ہے ۔ رانجھے اور مرزے رومان کا سفر بھی عورت کے مشوروں اور صلاحوں سے طے کرتے رہے ہیں اور تخت وتاج کے وارثوں کو بھی اس کی گود سے رہنمائی میسر ہوتی رہی ہے۔پنجاب کی عورت کے گیان اور سوجھ بوجھ کی کہانی گھر کے آنگن سے سماج کے وسیع تر منظر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب ہمیشہ سے ایک لبرل اور ترقی یافتہ سوچ کا حامل خطہ رہا ہے۔ جس نے عورت کو رسم رواج کی طلائی بیڑیاں پہنا کر نہ تہہ خانوں میں بندی وان کی طرح جینے پر مجبور رکھا، نہ اسے خریدوفروخت کی اذیت سے گزارا،نہ پردوں کے پیچھے محصور کر کے اس کی حیثیت مجروح کی۔ بلکہ وہ فرد کے طور پرسب کے ساتھ منظر پر پوری آن بان کے ساتھ موجود بھی رہی اور اپنا کردار بھی نبھاتی رہی۔ کوئی بھی معاشرہ سوفیصد خیر کا حامل نہیں ہوتا۔ پنجاب کی عورت کے رستے مسدود کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں نہ صرف برصغیر بلکہ دور دراز علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے مستقل سکونت اختیار کرتے رہے ہیں۔ ان میں کچھ متشدد مزاج لوگ عورت کے حوالے سے شدید گمراہ کن خیالات کے حامل بھی تھے۔ یوں تنگ نظری اور استحصال کی شکلیں بنتی بگڑتی رہی ہیں لیکن مجموعی تاثر قائم رہا کہ اسے قائم رکھنے میں یہاں کے زندہ ضمیر مردوں کی جدوجہد اور رویے بھی قابل تحسین ہیں۔ہمارے صوفیا نے خصوصاً عورت کی تکریم کی اپنے اشعار اور عمل کے ذریعے بھرپور ترویج کی ہے۔ ان میں شاہ حسین کا نام سر فہرست ہے جن کے لفظوں میں عورت معنی اور دھڑکن کی طرح سرایت کئے ہوئے ہے۔ ایک طرف انھوں نے عورت کے احساسات و جذبات کو اوڑھ کر رب سے گفتگو کی اور دوسری طرف عورت کی حساسیت کے تھرمامیٹر سے معاشرے کی نبض چیک کرکے سماج کی دو نمبری، منافقت اور غیر انسانی رویوں کی نشان دہی کی ہے۔ اپنی ذات کو منفی کرناآسان نہیں مگر عورت کی نظر سے کائنات اور رب کو دیکھنا اور رابطہ استوار کرنا وسعت کا حامل ہے۔عورت بذات خود ایک کائنات ہے، جہان ہے، رب کے تخلیقی عمل میں شریک کار ہے۔ وہ زندگی کو جنم دیتی ہے۔ جس کرب، درد اور تکلیف سے گزرتی ہے مرد اس کو محسوس نہیں کر سکتا۔ یہی کرب اسے زندگی کے وسیع سلسلوں اور تلخ و شیریں ذائقوں سے روشناس کرتا ہوا اس کی ذات کو ایثار، قربانی اور محبت کی علامت بنا دیتا ہے۔اس کے ہر رشتے میں ممتا کی آمیزش اسے مہربان روپ عطا کرتی ہے تو اولاد کی حفاظت طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ اور عزم دیتی ہے۔ جب عورت کسی ادارے، صوبے یا ملک کی سربراہ ہو تو لوگ اس کے لئے اولاد کی طرح اہم ہونے چاہئیں۔ جن کی بقاء اور فلاح اس کا مطمح نظر اور پہلی ترجیح ہو۔ مریم نواز نے بطور پہلی وزیراعلیٰ پنجاب کام کاآغاز کیا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پنجاب کی اُجلی روایات کے مطابق انھیں اس منصب پر سب جماعتوں اور نمائندوں کی طرف سے خوش آمدید کہا جاتا مگر تنقید، جھوٹی خبروں اور پراپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کر دیا گیا ہے۔ ہر فرد مشوروں کی گٹھڑی اٹھائے کسی نہ کسی سوشل میڈیائی پلیٹ فارم سے جھانک رہا ہے۔ منفی اندازوں اور تشویش ناک تبصروں سے مایوسی پھیلانے کی بجائے انھیں کام کرنے دیںجو عورت مشرف کی آمریت، عدلیہ کی بے انصافی، مخالفین کا ناروا سلوک اور جیل کی تنگ دستی بھگت کر کھڑی رہی وہ پنجاب کو گرنے نہیں دے گی۔ اسے جمہوری قدروں کے پاسدار، اصول پسند نظریاتی سیاستدان اور انتہائی زیرک انسان پرویز رشید کی معاونت اور شفقت میسر ہے۔ اسے کام کرنے دیجئے۔ کم از کم تبصروں اور تنقید کے لئے ایک سال کی کارگرگی کا انتظار بہت ضروری ہے۔حکومت پنجاب سے امید ہے کہ وہ میلہ چراغاں کی اصل شکل اجاگر کرنے کی طرف توجہ دے گی۔ کلچر ڈے اور دیگر میلوں پر کثیر رقم خرچ کر دی جاتی ہے مگر لاہور کے اس عظیم صوفی شاعر کے نام پر سجنے والا میلہ جو کبھی پورے شہر کی رونق ہوا کرتا تھا، مزار تک محدود ہو گیا ہے۔پرویز رشید صاحب کی ثقافت اور صوفیانہ دانش سے گہری وابستگی کے باعث امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ