نئے انتخابات کے بعد حکومتیں بننے کا عمل اب مکمل ہونے جا رہا ہے۔ دو صوبوں میں حکومتیں بن گئی ہیں۔باقی دو صوبوں میں بننے جا رہی ہیں۔مرکز میں بھی حکومت بننے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے بلکہ اب تو صدارتی انتخاب کی تاریخیں بھی سامنے آرہی ہیں اور جس طرح شہباز شریف کے وزیراعظم بننے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے اسی طرح آصف زرداری کے صدر بننے میں بھی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔ لہذا حکومتیں بن رہی ہیں اور انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل مکمل ہو رہا ہے۔ دو ہفتے قبل یہ سب بہت مشکل نظر آرہا تھا۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ کتنا آسان تھا۔
جیسے دو ہفتے قبل دوستوں کا شور تھا کہ حکومتیں نہیں بنیں گی۔ اب شور ہے کہ یہ جو حکومتیں بن گئی ہیں یہ چلیں گی نہیں۔ ابھی وزیر اعظم نے حلف نہیں لیا تو چند دوستوں نے حکومت کب تک چلے گی پر قیاس آرائیاں شروع کر دی ہیں۔ فیصل واوڈا سب سے آگے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سیٹ اپ دو سال سے زیادہ نہیں چلے گا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈیڑھ سال بھی نہیں چلے گا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی یہ سیٹ اپ دو سال سے بھی کم چلے گا اور کیا واقعی یہ سیٹ اپ اتنا کمزور ہے کہ ڈیڑھ سال میں گر جائے گا۔ اگر گر جائے گا تو گرنے کے کیا محرکات ہوں گے۔
پہلی بات تو یہ بھی ہے کہ لوگ صرف حکومت گرنے کی بات نہیں کر رہے بلکہ ڈیڑھ سال میں دوبارہ انتخابات کی بات کر رہے ہیں۔ اب یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ صرف مرکزی حکومت کے گرنے کی بات کی جا رہی ہے جب کہ صوبائی حکومتوں کے گرنے کی کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ جو دوست مرکزی حکومت کو ڈیڑھ سال کی مدت دے رہے ہیں وہ صوبائی حکومتوں کے مستقبل پر خاموش ہیں۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیسے ہوگا کہ چاروں صوبائی حکومتیں تو اپنی جگہ قائم رہیں گی لیکن مرکزی حکومت گر جائے گی۔
پنجاب کی حکومت گرنے کا کوئی چانس نہیں۔ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کسی بھی سیاسی بیساکھیوں پر نہیں ہے۔ ن لیگ کے اپنے ووٹ پورے ہیں۔
اس لیے کوئی اتحادی ساتھ چھوڑ بھی جائے تو حکومت نہیں گرے گی۔ ویسے پنجاب میں ن لیگ کے ساتھ ق لیگ اور پیپلزپارٹی اتحادی ہیں۔ لیکن دونوں نمبر گیم میں ایسی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ مریم نواز کی وزارت اعلی کے لیے کوئی مشکل پیدا کر سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر مرکز میں اتحاد ختم بھی ہو جائے تو پنجاب کی حکومت قائم رہے گی اور پنجاب کی حکومت گرنے کا کوئی امکان نہیں۔ مرکز کے ن لیگ کے اتحادی پنجاب حکومت گرانے کی طاقت نہیں رکھتے۔
اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی اتنی مضبوط پوزیشن میں ہے کہ اس کی حکومت کو کوئی گرا نہیں سکتا۔ وہ بھی سیاسی طور پر کسی پارٹی کی محتاج نہیں ہے۔ مرکز میں کچھ بھی ہو جائے تو سندھ کی حکومت نہیں گر سکتی۔ جس طرح پنجاب کی حکومت سیاسی طور پر مستحکم ہے۔ اسی طرح سندھ حکومت بھی سیاسی طور پر مستحکم ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو سندھ کی حکومت عددی طور پر پنجاب سے بھی مضبوط ہے۔
اسی طرح کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت تو عددی طور پر پنجاب اور سندھ سے بھی مضبوط نظر آرہی ہے۔ وہاں وزیر اعلی پر مقدمات ضرور ہیں۔ یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ انھیں نو مئی کے مقدمات میں سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر فرض کر لیں کہ ایسا ہو بھی ہو جائے تب بھی وہاں تحریک انصاف اپنا دوبارہ وزیر اعلی لے آئے گی۔ انھیں نیا وزیر اعلی لانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ سوال یہی ہے کہ کیا مرکز میں حکومت گرنے سے کے پی کی حکومت پر کوئی اثر ہوگا۔ جواب یہی ہے کہ مرکز میں جو مرضی طوفان آجائے کے پی کی حکومت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
بلوچستان کی صورتحال دلچسپ ہے۔ وہاں پیپلزپارٹی اور ن لیگ مل کر حکومت بنا رہے ہیں۔ جیسے مرکز میں دونوں جماعتیں مل کر حکومت بنا رہی ہیں۔ ویسے ہی بلوچستان میں بھی مل کر بنا رہے ہیں۔
اگر مرکز میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو بلوچستان میں بھی اتحاد ٹوٹ جائے گا۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے بلوچستان مرکز میں اتحاد قائم رکھنے کی وجہ بن جائے۔ پیپلزپارٹی پر دبا رہے کہ اگر آپ نے مرکز میں اتحاد ختم کیا تو بلوچستان میں آ پ کی حکومت ختم ہو جائے گی۔
بہرحال ن لیگ کے پاس ہر وقت یہ آپشن موجود رہے گا کہ وہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی سے علیحدہ ہو کر جے یو آئی (ف) کے ساتھ ملکر حکومت بنا لے۔ ایسا نہیں ہے کہ بلوچستان میں مرکز میں حکومت ٹوٹنے سے کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ وہاں کوئی حکومت ہی نہ بن سکے۔ اس لیے مجھے بلوچستان میں بھی سیاسی طور پر مستحکم حکومت ہی نظر آرہی ہے۔ ایسی صورتحال نہیں ہے کہ بلوچستان اسمبلی ختم ہو جائے اور وہاں کوئی حکومت ہی نہ بن سکے۔
اب جہاں تک مرکز کی بات ہے تو یہ درست ہے کہ عددی طور پر وہاں ایک مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے۔ اب کیا مرکزی حکومت ڈیڑھ سال میں گر جائے گی؟ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کو ایسا کیا فائدہ ہو گا کہ وہ مرکزی حکومت کو گرا دیں گے۔ کیا پیپلزپارٹی ڈیڑھ سال میں ملک میں نئے انتخابات چاہے گی؟ مجھے نہیں لگتا۔ وہ کیوں ڈیڑھ سال میں دوبارہ انتخابات چاہیں گے۔ اس کے لیے انھیں اپنی سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی بھی قربانی دینا ہوگی۔
وہ کیوں دیں گے۔ وہ کیوں سیاسی طور اپنی مستحکم حکومتیں خود ہی ختم کر دیں گے۔ بہر حال پیپلزپارٹی کی قیادت میں عمران خان کی نہ تو کوئی سوچ پائی جاتی ہے اور نہ ہی ان کا انداز سیاست ایسا ہے اور نہ ہی مجھے ڈیڑھ سال میں ایسی کوئی صورتحال نظر آرہی ہے کہ پیپلزپارٹی کو پورے ملک میں انتخابات جیتنے کی امید پیدا ہو جائے۔وہ حکومت توڑ کر کیا کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال بعد انھیں مرکزی حکومت گرا کر کیا مل جائے گا۔
ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ بلاول وزیر اعظم بن سکیں۔ تو کیا ہم یہ امید کر رہے ہیں کہ ڈیڑھ سال بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ملکر مرکزی حکومت بنانے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف بلاول کو وزیر اعظم کا ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہو جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا اور پھر بلاول یہ ووٹ کیوں لیں گے۔
ان کی تو ساری سیاست اس وقت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔ وہ کیوں اسٹبلشمنٹ مخالف سیاسی جماعت کے ساتھ جائیں گے۔ اس لیے سیاسی بیان بازی اپنی جگہ مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی ایک دفعہ شہباز شریف وزیراعظم بن گئے تو عدم اعتماد عملی طور پر ناممکن ہو جائے گی۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ قومی اسمبلی بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس