غزہ کی آگ سےساری دنیا جل جائے گی۔۔۔تحریر:وجیہ احمد صدیقی

امریکی ہوائی فوج کے ایک اہل کارایرون بش نیل نے غزہ میں اسرائیلی افواج کے ظلم وستم کو اپنی انتہا پر دیکھ کراتوار کی دوپہر واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے بطور احتجاج اپنے آپ کو نذر آتش کرلیا ۔اسے شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا لیکن پیر کےدن زخموں کی تاب نہ لا کر وہ جاں بحق ہوگیا۔
25 سالہ ایرون بش نیل امریکی فضائیہ کا سینئر ائرمین تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی اس اندوھناک موت کا ذمہ دار کون ہے ؟امریکی پالیسیاں ؟ اسرائیل کے حملے یا دنیا بالخصوص مسلم دنیا کی بے حسی؟میرے خیال میں اسرائیل کو یہ جرات اس لیے ہوئی کہ مسلم دنیا نے اسرائیل اور حماس کی جنگ میں اس رد عمل کا اظہار نہیں کیاجو اسرائیلی حملوں کے رد عمل کا فطری تقاضا تھا۔مسلم دنیا کا تو وہ رد عمل بھی نہیں ہے جو روس یوکرین جنگ میں مغربی ممالک کا روس کے خلاف رہا ہے ۔معذرت کے ساتھ عرب ممالک کا رویہ توفلسطین کے ساتھ اجنبی ہوتا ہی جارہا ہے لیکن ایران جو حماس کی سرپرستی کا دعویٰ رکھتا ہے اس معاملے آگے بڑھ کر نہیں آیا ۔اگر حماس نے اسرائیل کے اس آئرن ڈوم کو توڑا تھا،جو اس نے راکٹوں کے حملوں سے بچنے کے لیے بنایاتھا توقع تو یہی تھی کہ حماس کو اس کے ممکنہ رد عمل کا اندازہ ہوگا اگر ایسا نہیں تھا اس کا ادراک کرلینا چاہیے تھا اور اس رد عمل کا جواب بھی تیار رکھنا چاہیے تھا۔لیکن اس قدر اسرائیل کےشدیدظلم اور دہشت گردی کے باوجوداس وقت اس کو کسی بھی سمت سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہے اور وہ مکمل آزادی کے ساتھ غزہ کوکھنڈر بناتا اورمزید نئی اسرائیلی بستیوں کی منصوبہ بندی کرتا چلا جارہا ہے ۔حماس نے اپنے حملوں سے 7 اکتوبر 2023 کواسرائیل پر حملہ کیااور12 سو اسرائیلیوں کو ہلاک کیااور 253 کو یر غمال بنا لیا۔جس کے جواب میں اسرائیل اکتوبر 23 سے اب تک مسلسل حملے کیے جا رہا ہےاور اس کے نتیجے اب تک 30 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اوراربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوچکا ہے ۔غزہ کا سارا ،انفرا ،اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔لیکن مسلم دنیا نے صرف اظہار افسوس کو کافی سمجھا۔اسرائیل کی اس فرعونیت پر امریکی شہری بھی تڑپ اٹھے ہیں،اورایرون بش نیل نے تو اپنی جان ہی دے دی ہے ۔اس سے قبل دسمبر 23 میں امریکی ریاست اٹلانٹا میں بھی ایک خاتون اپنے آپ کو اسرائیلی قونصل خانے کے سامنے نذر آتش کرنے کی کوشش کرچکی ہے ۔مسلم دنیا میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے لیکن اس کا کیا حاصل ہوا ، اسرائیل کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔عرب دنیا تو اسرائیل کے ساتھ رشتے استوار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔پاکستان سمیت ساری اسلامی دنیا کی کوئی مشترکہ خارجہ پالیسی اورمشترکہ حکمت عملی نہیں ہے ۔وہاں تو ہمیں دکھ کی وہ رمق بھی نظر نہیں آتی جو ایرون بش نیل اور دیگر مغربی شہریوں کے دلوں میں ہے کہ وہ اسرائیل کی شقی القلبی اوربہمیت پر اس قدردل برداشتہ ہوا ہے اپنے آپ کو آگ لگا کر آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئےجان ہی دے دی اورمسلم دنیا میں اس قدر سرد مہری ہے کہ وہ بے حسی کا لحاف اوڑھے سورہی ہے۔نومبر 23 میں ریاض میں ہونے والے مسلم اور عرب دنیا کے مشترکہ اجلاس میں اسرائیل کے خلاف کوئی مشترکہ بیان بھی نہیں آسکا اس پر بھی آپس میں اختلاف تھا،چہ جائیکہ اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندی کا کوئی فیصلہ ہوتااسے غزہ سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا ، غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے بنائے جاتے۔مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ خوف تھا تو صرف یہ تھاکہ کہیں ان کے مغربی اتحادی ناراض نہ ہوجائیں جبکہ مغربی دنیا میں انسان دوست افراد ، اسرائیل کی بربریت پر نوحہ کناں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے بھی تنگ آئے ہوئے ہیں۔یہاں تک ان ملکوں کی افواج میں شامل افراد بھی اسرائیل کی درندگی پر چیخ پڑے ہیں ۔لیکن مسلم دنیا کے حکمران اپنے مفادات کی عینک پہنے بیٹھے ہیں ۔انہیں نظر نہیں آ رہا ہے کہ ان کے ملکوں کے عوام میں جو لاوا پک رہا ہے وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔عرب دنیا کے کسی بھی ملک میں جمہوریت نہیں ہے وہاں آمریت یا بادشاہت ہے ۔ مسلم دنیا کاحکمران طبقہ اپنے عوام سے بہت دور ہے وہ ان کے مزاج کو نہیں سمجھتاان کے جذبات سے ناواقف ہے حکمرانوں اور اسلامی دنیا کے عوام کے درمیان یہ فرق کا ایک نہ ایک دن تصادم کی شکل اختیارکر لے گااور عین ممکن ہے کہ غزہ کے واقعات ہی اس ٹکراؤ کا سبب بن جائیں۔ اسرائیل کے فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں سے غزہ میں ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی مسلم معاشروں میں دہشت گردی کا سبب بن سکتی ہے ۔ مسلم عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ہے 1200 اسرائیلیوں کومارنے پر حماس کودہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے تو 30 ہزار فلسطینیوں کی قاتل اسرائیلی فوج کو دہشت گرد کیوں نہیں قرار دیا جارہا ہے ؟یہ سوال ایک سادہ سی سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن مسلم دنیا کے حکمرانوں کے لیے ترجیحات کچھ اور ہیں وہ اپنی پالیسیاں اپنے مغربی اتحادیوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی بناتے ہیں ۔وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے ان کے مغربی دوست ناراض ہوں ، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے عوام میں ایک لاوا پک رہا ہے جس کے پھٹنے پر ان کے مغربی اتحادی بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے ۔اسلامی دنیا میں ترکی ، انڈونیشیا ملائشیامیں تو حقیقی جمہوریت نظر آتی ہے ۔پاکستان اور بنگلہ دیش میں نام نہاد جمہوری نظام ہے ۔لیکن عرب دنیا،وسطی ایشیااورایران و افغانستان میں بادشاہت اور آمریت کا ہی دور دورہ ہے ۔اسلامی دنیا کے عوام سمجھتے ہیں کہ آج یہ سب کچھ غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے کل یہ سب کچھ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔اگر ہمارے حکمرانوں نے اس کا سدباب نہیں کیا تو ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا اوراس کے نتیجے میں ان ممالک میں دہشت گردی نہ صرف پیدا ہوگی بلکہ بڑھے گی بھی۔مغربی حکمران بھی ایرون بش نیل کی قربانی سے عبرت پکڑیں اور اسرائیل کو ہاتھ پکڑ کر روکیں کیونکہ صرف اسلامی دنیا میں ہی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف نفرت نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ خود ان کے معاشرے میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کیا فلسطینیوں کا آزاد وطن کا حق حاصل نہیں ہے ۔ ایرون کا آخری نعرہ فلسطین کی آزادی کے لیے تھا۔غزہ کی یہ آگ اب صرف غزہ تک نہیں محدود رہے گی بلکہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔دنیا کا ہر طبقہ اس پر احتجاج کررہا ہے ۔ دنیا بھر سے 8 ہزار سے زائد فنکاروں نے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کی وجہ سے وینس بینالے پر پابندی لگانے کے لیے شروع کی گئی پٹیشن کی حمایت کی ہے۔”آرٹ ناٹ جینوسائیڈ الائنس (اے این جی اے)” نامی بین الاقوامی گروپ کی طرف سے شروع کی گئی دستخطی مہم میں، اسرائیل، جو غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اپنا “ظلم” جاری رکھے ہوئے ہے، 20 اپریل اور  نومبر کے درمیان  منعقد ہونے  پروگرام میں اسرائیل کو جگہ نہ دینے  کو کہا گیا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے جنوری میں لیے گئے عبوری حکم امتناعی کے فیصلے کی نشاندہی کرتے ہوئے، دنیا بھر کے 8 ہزار سے زائد فنکاروں، کیوریٹروں اور مصنفین کی حمایت یافتہ دستخطی مہم میں حصہ لیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ  غزہ پر جاری حملہ جاری ہے اور اسرائیل کے رہنما   اپنے آپ کو بین الاقوامی قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے  اور ڈھٹائی سے اپنے نسل کشی کے عزائم  کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔دستخطی مہم میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ 2022 میں، جب روس،یوکرین جنگ شروع ہوئی تھی  تو  یوکرائنی عوام کے “حق خود ارادیت اور آزادی” کی حمایت کرتے ہوئے بہت سے عوامی بیانات دیے گئے تھے  اور  پابندی لگانے کا فیصلہ بھی  کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ  غزہ پر جاری حملہ جاری ہے اور اسرائیل کے رہنما   اپنے آپ کو بین الاقوامی قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے  اور ڈھٹائی سے اپنے نسل کشی کے عزائم  کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔