مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب : تحریر مزمل سہروردی


مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلی منتخب ہو گئی ہیں۔ انھوں نے وزارت اعلی کا حلف بھی اٹھا لیا ہے اورکام بھی شروع کر دیا ہے۔ انھیں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلی بننے کا اعزاز بھی حا صل ہو گیا ہے۔ مریم نواز کا وزارت اعلی کے منصب تک پہنچنے کا سفر کوئی آسان نہیں تھا۔ بے شک وہ میاں نواز شریف کی بیٹی اور ان کی سیاسی جانشین ہیں۔

لیکن یہ کہنا کہ صرف ا س کی وجہ سے وہ وزیر اعلی بن گئی ہیں، درست نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ میاں نواز شریف کی بیٹی ہونے اور ان کی سیاسی جانشین ہونے کی انھوں نے ایک بڑی قیمت ادا کی ہے۔ میاں نواز شریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ان کا سیاسی سفر آسان نہیں ہوا بلکہ مزید مشکل ہوگیا۔

بلکہ اگر میں دیکھوں تو دیگر سیاسی خاندانوں کے جانشین زیادہ آسانی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کر لیتے ہیں۔ لیکن مریم کو سب کی نسبت زیادہ مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے۔ آپ دیگر سیاسی جانشینوں کے سیاسی سفر سے تقابلی جائزہ میں یہ آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ 2013میں میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد جب مریم نواز نے وزیر اعظم ہاؤس میں ایک میڈیا سیل بنایا تھا تا کہ سیاسی مخالفین کا میڈیا میں مقابلہ کیا جا سکے۔

ان کا یہ سیل ن لیگ کے سیاسی مخالفین کے دل میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا۔ گو کہ ان کے پا س کوئی حکومتی اور سیاسی عہدہ نہیں تھا لیکن وہ سیاسی مخالفین کی ہٹ لسٹ پر تھیں۔

اسی دوران پاناما لیکس کا ایشو آگیا ۔پاناما میں نواز شریف کو مائنس کرنے والے اسکرپٹ رائٹرز نے ان کی سیاسی جانشین مریم نواز کو بھی مائنس کرنے کا اسکرپٹ لکھ دیا۔ یوں انھیں بھی سیاست سے مائنس کرنے کا کھیل شروع ہو گیا۔ ان کو بھی سزا دے دی گئی حالانکہ انھوں نے کبھی کوئی حکومتی عہدہ نہیں رکھا تھا اور نہ ہی وہ کبھی پارلیمنٹ کی ممبر رہی تھیں۔

یہاں پر مریم نواز کے پاس ایک راستہ تھا، جب ان کو سزا ہوئی تو وہ لندن میں تھیں۔ وہ سیاست چھوڑنے کا اعلان کر کے لندن میں ہی رہ جاتیں۔ لیکن وہ نواز شریف کے ساتھ گرفتاری دینے واپس آگئیں۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز گرفتاری سے ہوا۔ سب کو معلوم تھا کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ گرفتار کر رہی ہے اور اس گرفتاری کے نتیجے میں ان کی مشکلات کم نہیں ہوںگی بلکہ دن بدن مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

یہ گرفتاری کوئی سرنڈر نہیں تھا بلکہ لڑنے کا اعلان تھا اور یہی ہوا۔ مشکلات میں اضافہ ہوا ، جیل میں سختی بھی ہوئی،کوئی رعایت نہیں ملی۔ مریم نواز نے جیل کی سب سختیاں برداشت کیں۔ ان کے مخالفین انھیں جیل کی سختیوں سے توڑنے میں ناکام رہے۔

ایک دفعہ رہائی کے بعد انھیں اپنے والد کے سامنے دوبارہ گرفتار کیا گیا تا کہ دنوں کو توڑا جا سکے۔نواز شریف جیل میں بیما رہوگئے۔ نواز شریف کو تو لندن جانے کی اجازت مل گئی۔ لیکن مریم نواز کو باپ کے ساتھ لندن جانے کی اجازت نہیں ملی۔ ان کا پاسپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں ایک ایسے ریفرنس میں رکھ لیا گیا جو کبھی نیب کی جانب سے دائر ہی نہیں ہوا تھا۔

ان کو پاکستان میں رکھا گیا تا کہ نواز شریف کو کنٹرول کیا جا سکے۔ لیکن پاکستان میں مریم نوازنے مزاحمت کی ایسی تحریک چلائی کہ وہ نواز شریف کی کمزوری کے بجائے طاقت بن گئیں۔ ان کی مزاحمت سے ہی اسٹیبلشمنٹ مفاہمت پر مجبور ہوئی۔ ورنہ ایک وقت میں تو یہ تک کہا جاتا تھا کہ جس کے نام کے ساتھ شریف ہو گا،ا س کا پاکستان میں کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہوگا۔ یہ ماحول بنایا جا رہا تھا کہ شریف فیملی پر ریڈ لائن لگا دی گئی ہے، ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ اسی دوران یہ بات بھی کہی جاتی تھی کہ مریم نواز کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔

ان کی تقاریر کے بعد کہا جاتا تھا کہ انھوں نے اپنے لیے مشکلات میں اضافہ کر لیا ہے۔ ایک ایسا وقت تھا جب عمران خان کے دور میں مریم نواز کی کوئی خبر نہیں چلائی جاتی تھی۔ پی ڈی ایم میں بھی مریم نواز کا ایک کلید ی کردار تھا۔ ان کا سیاسی کردار پی ڈی ایم کی مزاحمتی تحریک میں کھل کر سامنے آیا۔

مریم نواز کے سیاسی مخالفین کے پاس کوئی سیاسی جواب نہیں رہتا تو ان کے کپڑوں پر تنقید شروع کر دی جاتی ہے، جوتوں پر تبصرے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاسی دانشور ٹی وی چینلز پر یہ مشورے دینے لگتے کہ انھیں ایسے کپڑے پہننے چاہیے، ایسی گھڑی نہیں لگانی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں جب آپ کے پاس مریم نواز کی سیاست کا کوئی جواب نہیں تو آپ ذاتیات پر آجاتے ہیں۔ ذاتی حملہ اس بات کو ثبوت ہے کہ سیاس دلیل اور سیاسی جواب نہیں ہے۔

پنجاب کی وزارت اعلی انھیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی گئی ہے۔ آپ دیکھیں پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی انھیں پاسپورٹ نہیں دیا گیا تھا۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ صرف نواز شریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے وہ پنجاب کی وزیر اعلی بن گئی ہیں۔ انھوں نے نواز شریف کی بیٹی ہونے کی بھاری سیاسی قیمت بھی ادا کی ہے۔

انھوں نے ایک بھر پور سیاسی لڑائی لڑ کر پنجاب کی وزارت اعلی حاصل کی ہے۔ وہ کوئی لائن توڑ کر پنجاب کی وزیر اعلی نہیں بنی ہے۔ ان کی قربانیاں جدو جہد اور سیاسی کام کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل اب مریم نواز کی کارکردگی سے مشروط کیا جا رہا ہے۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کی کارکردگی اچھی ہوئی تو مستقبل اچھا ہوگا۔ آج مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل ان کے ہاتھ میں کہا جا رہا ہے۔ اگرایسا ہے تو میری رائے میں مریم نواز اس چیلنج پر بھی پور ا اتریں گی۔ کیونکہ اب تک ان کے سامنے جو بھی چیلنج آیا ہے، انھوں نے نہ صرف اسے قبول کیا ہے بلکہ پورا بھی کیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس