اَساں قیدی تخت ’’سیاست‘‘ دے : تحریر سہیل وڑائچ


انتخابات کا سفر مکمل ہوا، اب حالات بدلنے چاہئیں۔ موسم سرما بھی رخصت ہو رہا ہے، بہار بہار کی آمد ہے، کلیاں چٹخنے لگی ہیں ، پھول کھلنے کو ہیں، اب ملک اور سیاست میں بھی بہار آنی چاہیے۔ ہماری صحافت کی پرانی روایت ہے کہ جب بھی کوئی اہل سیاست جیل میں جائے تو اسکے ساتھ اختلاف ختم کرکے اس کا ساتھ دیا جائے، میں سالہا سال سے اسی روایت پر کاربند رہا ہوں۔ آصف زرداری جب جب جیل گئے میں نے ان پر لکھا، آخری جیل کے دوران کالم ’’وہ سوتیلا ہے‘‘ لکھا۔ ان کی مہربانی ہے کہ انہیں ہر ملاقات میں یہ کالم یاد رہتا ہے۔ نواز شریف جیل میں گئے تو لکھا ’’اگر وہ مر گیا تو‘‘ نواز شریف کی یاد داشت بہت بہتر ہے، آج کل تو میری ان سے ملاقات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن پہلے ہر ملاقات میں وہ میرے کالموں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ رانا ثنا اللہ کی جیل کے دوران بھی لکھا، انہوں نے مکہ مکرمہ سے عمرہ کے دوران مجھے فون کرکے اس کالم کا شکریہ ادا کیا۔ جیل جانے والے سیاستدانوں پر میں نے درجنوں کالم لکھے ہیں۔ آج کا کالم تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اسیروں کے نام ہے۔

9 مئی کا واقعہ قابل مذمت ہے مگر 8 فروری کے مینڈیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عوام الناس نے اس فروگزاشت کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اور عمران خان کو قطار اندر قطار ووٹ ڈالے ہیں، اگر کسی غلطی پر عوامی گواہی میسر نہ آئے تو وہ غلطی بھی ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک نئے دور کی ضرورت ہے، عمران خان کو جیل سے نکال کر بنی گالا منتقل کیا جائے وہ کوئی غدار یا شرپسند نہیں،انہیں بھرپور عوامی مینڈنٹ ملا ہے۔ ان کی نظر بندی کے دوران مقتدرہ کا نمائندہ وفد جاکر ان سے ملے اور مقتدرہ انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرے۔ انہیں سکیورٹی صورتحال اور سیاسی ماحول کے بارے میں بریف کیا جائے۔ اسی طرح اہل سیاست بھی ان سے رابطہ کرکے مستقبل کے ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کریں ۔ یاد کریں کہ 1977ء میں قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں خونیں جنگ جاری تھی، قومی اتحاد کی قیادت جیلوں میں بند تھی مگر پھر ان کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کرکے مذاکرات شروع کئے گئے۔ اب بھی ملکی استحکام، سیاسی ساکھ اور معاشی مستقبل کیلئے ایسا کرنا اشد ضروری ہے۔

عمران خان خوشحال اور پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ایچی سن کالج اور آکسفورڈ میں پڑھے، کرکٹ میں آئے تو سلیبریٹی بن گئے۔ ان کیلئے جیل کاٹنا بہت مشکل ہوگا مگر وہ بہادری اور ثابت قدمی دکھا رہے ہیں۔ 8 فروری کے بعد اب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں گی، مقتدرہ کا غصہ بھی اب ٹھنڈا ہوجانا چاہیے اور عمران کے ساتھ ہونے والا سوتیلا سلوک اب ختم ہونا چاہیے۔ پہلے مرحلے کے طور پر انہیں جیل سے نکال کر نظر بند کیا جاسکتا ہے، کوشش کی جائے کہ وہ میانوالی سے منتخب ہوکر پارلیمان میں بھی آئیں۔ فرض کریں میری یہ تجویز مان لی جائے تو یکایک ملک میں کشیدگی کا ماحول بدل جائے گا اور ریاست اپنی بھرپور توجہ معیشت کی بہتری کی طرف مرکوز کر سکے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مقتدرہ اور عمران خان میں ذاتی اختلافات تو ہیں پالیسی اختلاف کوئی بھی نہیں، اسلئے اس رابطے میں دونوں طرف سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔

اسی طرح باقی سیاسی اسیران جیسے ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید کو اہل لاہور دہائیوں سے جانتے ہیں یہ شرپسند نہیں، ہاں پارٹی کے وفادار ہوسکتے ہیں۔ انہیں جیلوں میں بند ہوئے مہینوں ہوچکے اب ان کو ریلیف ملنا چاہیے وہ سیاست میں واپس آئیں گے تو اس سے اعتدال آئے گا، اسی طرح روپوش حماد اظہر اور اسلم اقبال کو ان کے حلقہ نیابت نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے یہ دونوں نوجوان ہیں ان کا سیاسی مستقبل روشن ہے، ان کیلئے جمہوری راستہ کھولنا چاہیے۔ پنجاب اور صوبے پختونخوا بھر میں دیگر گرفتار اور روپوش رہنماؤں کے حوالے سے بھی اب پالیسی بدلنی چاہیے تاکہ نئے جمہوری سفر کا آغاز اچھے اور بھرپور طریقے سے ہو سکے۔ مقتدرہ نے اب تک تمام حربے آزما لئے مگر نہ ووٹ بینک ٹوٹا نہ سیاسی امیج پر فرق پڑا۔ میری شروع سے ہی عاجزانہ رائے تھی کہ انتظامی ہتھکنڈوں سے ووٹ بینک نہیںٹوٹتا، ووٹ بینک صرف سیاست سے ہی بڑھتا اور گھٹتا ہے، تحریک انصاف کاووٹ بینک تب ٹوٹے گا جب لوگ ان کی کارکردگی سے مایوس ہوں گے۔

سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں تحریک عدم اعتماد کے بعد سے مسلسل یہ عرض کرتا آیا ہوں کہ ملک کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ مصالحت ہے۔ یہی بات میں نے اور میرے ساتھیوں نے عمران خان اور نواز شریف سے الگ الگ ملاقاتوں میں کی، مقتدرہ سے بھی بار ہا یہ گزارش کی کہ پی ٹی فضل کی طرح صرف جبر سے نہیں، پی ٹی عنایت کی طرح مہربانی سے بھی کام لیں، جو لوگ مقتدرہ کے کہنے پر تحریک انصاف چھوڑ گئے وہ کہیں کے نہ رہے چاہے وہ چودھری فواد ہوں، فیاض الحسن چوہان ہوں یا فردوس عاشق اعوان۔ اسی طرح جہانگیر ترین اور پرویز خٹک بے چارے سیاست سے ہی آؤٹ ہوگئے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مقتدرہ کی پالیسیوں میں کوئی بہت بڑی خرابی ہے۔ الیکشن کے نتائج بھی ان کی من مرضی کے بالکل الٹ نکلے ہیں، کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اپنی پالیسیاں اور حکمت عملی بدلیں۔ سیاست کو اہل سیاست پر چھوڑیں اور وہ اپنے اصلی کام کی طرف توجہ دیں۔

اگر تاریخ سے سبق سیکھا جائے تو جو کچھ بھٹو کے ساتھ ہوا وہی آج عمران کے ساتھ ہو رہا ہے، بھٹو کی سیاست کو گیارہ سالہ ضیائی آمریت میں ہر طرح سے مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن بھٹو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے اور اس کی جماعت اس بار بھی سندھ میں حکومت بنائے گی اور مرکز میں صدارت بھی انہیں ملے گی۔ دوسری طرف جنرل ضیاء الحق کے وارث اعجاز الحق کو پورے پاکستان سے صرف ایک نشست ملی ہے اور وہ بھی جنرل ضیاء کے نام پر نہیں بلکہ بہاولنگر کی آرائیں برادری کی سرپرستی کی بنیاد پر۔ آج کی مقتدرہ اور عدلیہ، ضیائی دور سے کہیں سمجھدار، روشن خیال اور ترقی پسند ہے انہیں چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں، سیاسی قیادت بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ عمرا ن خان بڑے پکے محب وطن ہیں، تازہ مینڈیٹ نے ان کی مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، انہیں بھی اب ریاست کے ساتھ تعاون کا راستہ کھولنا چاہیے، مقتدرہ سے لڑائیاں اور گالی گلوچ کرنے والوں کی نہ سنیں اور ایک بالغ النظر سیاستدان کی طرح ماضی کی تلخیاں بھلا کر تاریخ کا نیا ورق الٹیں، اسی میں ملک وقوم اور عوام کی بھلائی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ