بھارتی اقلیتوں کی حالت زار۔۔۔۔۔تحریر محمد شہباز


آج جب دنیا بھر میں سماجی انصاف کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، مودی کی قیادت میں بھارت میں اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سماجی انصاف کا عالمی دن: مودی کے بھارت میں اقلیتیں بدستور انصاف سے محروم ہیں۔اقلیتوں سے برابری کے ساتھ برتا وکرنا سماجی انصاف کی بنیاد ہے لیکن بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور سکھوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔سماجی انصاف کا عالمی دن بھارتی اقلیتوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ مودی کے بھارت میں انہیں منظم امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔بھارت جو اپنی اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی انکار کر رہا ہو، کو سماجی انصاف کا عالمی دن منانے کا کوئی حق نہیں ۔مودی کی قیادت میں بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور سکھوں سمیت اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کا آئے روز مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ہندوتوا رہنما کھلے عام بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔مودی حکومت بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پورے معاشرے کو عسکریت میں تبدیل کرنے کیلئے کھلے عام ہندوتوا ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔بی جے پی حکومت بھارتی اقلیتوں کے خلافRSS کے نظریے کو مسلسل پروان چرھا رہی ہے۔بھارتی اقلیتوں پر ظلم و ستم نے دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو جہاں ہجومی تشدد،ان کے گھروں اور دکانوں کو مختلف حیلے بہانوں بلڈوزر سے دن دیہاڑے تباہ کیا جاتا ہے،وہیں عیسائیوں اور دلتوں کو تمام حقوق سے محروم اور ان کی خواتین کو آئے روز آبروریزی کا نشانہ بنانے سے گزیز نہیں کیا جاتا ،عیسائی ننوں کو ہندتوا دہشت گرد پیشاب پینے پر مجبور کرتے ہیں،دلت جو کہ بھارت میں نچلی ذات کے ہندو کہلاتے ہیں ،انہیں اونچی ذات کہلانے والے ہنددئوں کیلئے مختص مندروں میںجانے کی اجازت نہیں ہے،حتی کہ مندروں کے باہر لگے پانی کے نلوں سے بھی وہ پانی نہیں پی سکتے۔سکھ 1984سے بھارتی بربریت اور دہشت گردی کا شکار ہیں،جب اندرا گاندھی کے قتل کے الزام میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا اور اس سے پہلے امرتسر میں ان کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر ٹینکوں سے چڑھائی کرکے اس کی بیحرمتی کی گئی۔اقلیتوں کیلئے بھارت کسی جہنم سے کم نہیں ہے۔
اگر چہ بھارتی مسلمانوں کی جان و مال پہلے سے ہی ہندتو ا غنڈوں کے رحم و کرم پر ہے اب ان کی مذہبی ثقافت اور روایات بھی ہندو انتہاپسندوں کے نشانے پر ہے،ان کے کھانے پینے،لباس ،طرز زندگی اور بود وباش پر بھی سوالات اٹھائے جاررہے ہیں،کہ انہیں کیا کھانا اور پہنا چاہیے۔ان کی زبان جو کہ اردو ہے وہ بھی پابندیوں کی زد میں ہے۔مسلم خواتین بالعموم اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم مسلم بچیوں کے حجاب پر بھی پابندیاں عائد کرکے انہیں تعلیم کے زیور سے محروم کرنے کی منظم سازش اور مہم زوروں پر ہے۔پورے بھارت میں مساجد پر نظریں گاڑی جاچکی ہیں۔ 1992 میں پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد کی ہندوتوا غنڈوں کے ہاتھوں شہادت اور پھر09نومبر 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی اجازت اس بات کی عکاسی ہے کہ بھارت میں ہندتوا منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھارتی ادارے باالخصوص بھارتی عدلیہ پیش پیش ہے۔رواں برس 22جنوری کو ایودھیا میں نامکمل مندر کا مودی کے ہاتھوں افتتاح پوری دنیا کیلئے پیغام ہے کہ بھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی مہم BJP ،RSS اور دوسری ہندو انتہاپسند تنظیموں کا مشن ہے اور اس کیلئے مودی کو تیسری بار اقتدار دلانے کی کوشیشں عروج پر ہیں۔ہندوئوں کے ذہنوں میں مسلمانوں اور ان کی تاریخ سے متعلق زہر گھول دیاجاتا ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں بھارتی سپریم کورٹ کے اس پورے بینچ کو بھی مدعو کیا گیا تھا جس نے بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کرنے کے حق میں فیصلہ سنایا تھا،حالانکہ مذکورہ بینچ اپنی سماعت میںیہ آعتراف کرچکا تھا کہ بابری مسجد کے نیچے مندر کے کوئی اثار اور نشانات نہیں ملے تھے،مگر پھر بھی فیصلہ ہندتوا کے اجتماعی ضمیر کو خوش کرنے کیلئے انہی کے حق میں دیا گیا،جیسے کشمیری نوجوان محمد افضل گورو کی پھانسی بھارتی عوام کے اجتماعی ضمیر کیلئے ناگزیر قرار دی گئی۔ یوں بھارتی نظام انصاف کے چہرے پر ایسی کالک مل دی گئی جو کسی صورت دھوئی نہیں جاسکتی۔
بات بابری مسجد تک محدود نہیں رہی بلکہ حال ہی میں جنوبی دہلی کے مہرولی میں قائم چھ سو سالہ ا خوانجی مسجد کو آنا فانا بلڈورز سے زمین بوس کیا گیا۔جبکہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالہ میں ایک مدرسہ کے علاوہ ایک قبرستان کو بھی منہدم کیا گیا۔ اس بربریت کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے چھ مسلمان موقع پر ہی شہید جبکہ 250 کے لگ بھگ زخمی ہیں۔وارنسی کی گیان واپی مسجد پر بھی ہندوئوں نے اپنی نظریں جمائی ہیں۔پہلے یہ کہا گیا کہ مسجد مندر توڑ کر تعمیر کی گئی اور مسجد کے تہہ خانے میں ہندوئوں کی شیو لنگ ہے۔حالانکہ ماہرین اثار قدیمہ کے مطابق مسجد کے تہہ خانے میں شیولنگ نہیں بلکہ وضو کیلئے پانی جمع کرنے حوض ہے۔ہندو انتہاپسندوں کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے مذموم حربوں کے ذریعے گیان واپی مسجد ہڑپ نہیں کرسکتے،تو انہوں نے مقامی عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے تمام تر تاریخی حالات و واقعات کو بیک جبنش قلم ہندوئوں کو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ جاری کیا۔جس سے بھارتی مسلمانوں نے بھارتی عدالتوں کی طرف سے بابری مسجد ٹو فیصلے سے تعبیر کیا۔جبکہ متھرا میں مسلمانوں کی عید گاہ مسجد پر بھی ہندوئوں نے دعوی دائر کیا ہے،کیونکہ ہندو اب اس بات کے عادی ہوچکے ہیں کہ مسلمانوں کی مساجد اور دوسری عبادت گاہیںبھارتی عدالتوں کو استعمال کرکے ہی ہڑپ کی جاسکتی ہیں اور یہ حکمت عملی بڑی کامیابی کیساتھ جاری اور اس سے آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تین روز قبل ہی دہلی کی ایک عدالت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالبعلم رہنما شرجیل امام کو ضمانت دینے سے یہ کہہ کر انکار کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں سے متعلق امتیازی قانون شہریت ترمیمی بل کے خلاف شرجیل امام کی تقاریر اور دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے عوام میں تحریک پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں دہلی میں حالات خراب ہوئے اور شاید فروری 2020 میں دہلی مسلم کش فسادات پھوٹ پڑنے کی یہی اصل وجہ رہی ہوگی۔جج کا اپنے حکم میں مزید کہنا تھاکہ اگرچہ درخواست گزار نے ہتھیار اٹھانے یا لوگوں کو مارنے کیلئے نہیں کہا لیکن اس کی تقریروں اور سرگرمیوں سے عوام متحرک ہوئے اور شہر میں تخریبی سرگرمیاں ہوئیں۔ شرجیل امام کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون UAPA کے تحت بغاوت کے مقدمے کا سامنا ہے۔ شرجیل کے خلاف دہلی کے جامع علاقے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دسمبر 2019میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا مقدمہ دائر کیاگیاتھا ۔ انہیں 28جنوری 2020میں گرفتار کیاگیاتھا۔شر جیل امام پہلے ہی جیل میں 4برس گزرچکے ہیں جبکہ اس مقدمے میں انہیں زیادہ سے زیادہ 7برس کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ لیکن عدالت نے اس کے باوجود ان کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
جماعت اسلامی ہند جوکہ بھارت میں دعوتی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں کے سربراہ انجینئر سید سعادت اللہ حسینی نے حال ہی میں کھل کر کہاہے کہ مساجد، مدارس اورمسلمانوں کی دیگر عمارات کو مسمار کرنا بھارت میں مسلمانوں کی شناخت کیلئے خطرہ ہے۔سید سعادت اللہ حسینی نے کیرالہ میں ہندوتوا کی مزاحمت کروکے زیر عنوان ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نئی دہلی کے مختلف علاقوں اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں مسماری کی مہم نہ صرف مسلمانوں کی شناخت کیلئے خطرہ قرار دچکے ہیں بلکہ ان کاروائیوں کو بھارت کے سیکولر تانے بانے کی ٹوٹ پھوٹ سے تعبیر کیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کیلئے فرقہ پرستی، نفرت اور نسل پرستی کے خلاف پرعزم مزاحمت وقت کی ناگزیرضرورت ہے۔امیر جماعت اسلامی ہند نے مختلف مذاہب کے درمیان نفرت اور تقسیم کے خطرناک رجحان کو اجاگر کرتے ہوئے مشہور برطانوی مورخ آرنلڈ ٹوئنبی کے اس قول کا حوالہ دیا کہ تہذیبیں قتل سے نہیں خودکشی سے مرتی ہیں۔ بھارت میں ترقی اور خوشحالی پر نفرت پھیلانے کو ترجیح دی جارہی ہے۔بھاتی اداروں پر اعتماد کا فقدان اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کے حصول کیلئے عدالتی نظام میں ہیراپھیری ، قانون کے مخصوص اطلاق اور ہندو انتہا پسند رہنمائوں کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر اب معمول بن چکی ہیں۔
بھارت میں فرقہ وارانہ سیاست کا خطرناک رحجان دن بدن بڑھتا جارہا ہے جس سے نہ صرف مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی خطرہ ہے بلکہ عدالتی ساکھ اور قانون کی حکمرانی بھی زوال پذیر ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں جبر کے خلاف مزاحمت اور مذہبی آزادی کے تحفظ کیلئے تعلیمی اور معاشی طوپر بااختیار ہونے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔بھارتی مسلمانوں کیساتھ روا رکھی جانے والی ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے۔ بھارتی مسلم برادری ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں۔جو وقت اور حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔بھارتی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، دلتوں، سکھوں اور عیسائیوں پر حملے دنیا کیلئے ایک چیلنج ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھارت میں اقلیتوں پر ظلم و ستم روکنے کیلئے آگے آکر اپنا کردار ادا کریں۔اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے کام کرے۔