موقر برطانوی تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز ( آئی آئی ایس ایس ) کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس عالمی ریاستوں نے انسانوں کو مارنے کے لیے جو اسلحہ خریدا اس کی مالیت دو اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر ہے۔
یعنی دو ہزار بائیس کے مقابلے میں نو فیصد زائد ۔دنیا کی یہ واحد صنعت و تجارت ہے جو آج تک گھاٹے میں نہیں گئی اور ہر نئے سال کی خرید و فروخت گزشتہ برس سے اوپر ہی ہوتی ہے۔
جنگیں نہ بھی ہو رہی ہوں تو اس صنعت کو رواں رکھنے کے لیے نہ صرف جنگیں ایجاد کی جاتی ہیں بلکہ اقوام کے مابین موجود پرانے خوف کو پالش کر کے نیا کر دیا جاتا ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ عملی جنگوں سے زیادہ جنگ کا خوف اسلحہ بکواتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے متحرک فوجی اتحاد نیٹو کے یورپی ارکان کے دفاعی بجٹ میں روس کی دو ہزار چودہ میں جزیرہ نما کرائمیا اور پھر فروری دو ہزار بائیس میں یوکرین پر فوج کشی کے بعد سے بتیس فیصد اضافہ ہوا ۔دو ہزار چودہ تک دو یورپی نیٹو ممبرز اپنی کل قومی آمدنی کا دو فیصد اسلحے پر خرچ کرتے تھے۔آج انیس ممبر دو فیصد سے زائد صرف کر رہے ہیں۔
گزشتہ اپریل میں غیر جانبدار ریاست فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے بعد سے اب روس سے متصل نیٹو اتحاد کی سرحد مزید تیرہ سو کلومیٹر بڑھ گئی ہے۔
مغربی ممالک کا اندازہ ہے کہ اب تک روس یوکرین میں لگ بھگ تین ہزار ٹینک گنوا چکا ہے اور اس نقصان کی بھرپائی کے لیے اسے اپنے ذخیرے سے تقریبا دو ہزار پرانی طرز کے ٹینک میدانِ جنگ میں لانے پڑے ہیں۔جب کہ یوکرین کا دار و مدار مغربی اسلحے کی مسلسل رسد پر ہے۔
البتہ نیٹو یوکرین کی پوری ضروریات اور مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہے۔لہذا عسکری حکمتِ عملی کے مغربی ماہرین کا نیا نظریہ یہ ہے کہ ناگہانی حملے سے مقابلے کے لیے ممکنہ خطروں کی طاقت کا اندازہ لگا کے دگنا اسلحہ تیار حالت میں ذخیرہ کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگلے کم ازکم دس برس اسلحہ ساز کمپنیوں کے وارے نیارے۔اس کے بعد کوئی اور بحران سامنے آ جائے گا یا پیدا کر لیا جائے گا۔
اسلحے کی خرید و فروخت کی فہرست میں اب ایران کا نام بھی آ رہا ہے جس نے روس کو سیکڑوں خود کش ڈرونز اور یمن کے حوثیوں کو دورمار میزائل فراہم کیے ہیں۔جب کہ غزہ پر فوج کشی سے پہلے بھی اسرائیل سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے اور فروخت کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا تھا اور اب تو اس کے لیے بھانت بھانت کے امریکی و یورپی ہتھیاری ذخائر کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔
ڈرونز اور گلوبل پوزیشننگ سسٹم ( جی پی ایس) سے لیس ہتھیاروں کی مانگ میں اضافہ بھی فوجی بجٹ بڑھانے کا ایک بڑا سبب ہے۔ریاستیں اب اپنے پرانے اسلحے کو ڈیجیٹل اور اے آئی سے منسلک اسلحہ سے بدلنے کی سبقتی ہوڑ میں پڑ گئی ہیں۔
اس معاملے میں چین سب سے آگے ہے اور اپنے فرسودہ ہتھیاروں سے تیزی سے جان چھڑا رہا ہے۔چنانچہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آر اینڈ ڈی)کے اربوں ڈالر عالمی اخراجات بھی عسکری اخراجات میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔
مگر باقی دنیا کے فوجی خرچے ایک طرف اور امریکا کے ایک طرف۔ایک نئی کتاب شایع ہوئی ہے ڈائنگ بائی دی سورڈ۔ملٹرائزیشن آف یو ایس فارن پالیسی ۔مونیکا ٹافٹ اس کی مصنف ہیں۔
انھوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکا ماضی کے مقابلے میں آج طاقت کے استعمال کوسفارت کاری پر زیادہ فوقیت دیتا ہے۔وائٹ ہاوس کے فیصلہ ساز کمروں میں پینٹاگون کی رائے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشورے سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔دفاعی بجٹ سال بہ سال بڑھ رہا ہے جب کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا بجٹ پینٹاگون بجٹ کے محض پانچ فیصد کے برابر ہے۔
جنگجوئی ابتدا سے ہی امریکی قیادت کے خمیر میں ہے۔سترہ سو چھہتر سے آج تک امریکا دیگر اقوام کے معاملات میں تین سو ترانوے بار مسلح مداخلت کر چکا ہے۔ان میں سے دو سو کے لگ بھگ مہم جویانہ آپریشن دوسری عالمی جنگ کے بعد اور ان میں سے بھی ایک سو چودہ آپریشن انیس سو نواسی میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کیے گئے۔
سب سے زیادہ فوجی مداخلت مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ میں ہوئی یعنی ستتر بار۔سن دو ہزار سے اب تک امریکا بہتر لڑائیوں میں اپنی ٹانگ اڑا چکا ہے۔ تین عشرے پہلے تک امریکا فوجی قوت کے نفسیاتی مظاہرے یا طاقت کے استعمال کی دھمکیوں سے بھی مطلب نکال لیتا تھا۔لیکن اب بحرانوں کی نوعیت اتنی بدل گئی ہے کہ امریکا کو عملی طور پر اپنی فوجی طاقت حرکت میں لانا پڑ رہی ہے۔
افغانستان ، عراق ، شام ، ہیٹی ، گریناڈا ، پاناما ، بوسنیا ، کروشیا ، لیبیا ، صومالیہ اور لائبیریا تو ہمارے سامنے کی مثالیں ہیں۔اس وقت بھی بحیرہ روم میں اسرائیل اور لبنان کے ساحل کے قریب دو امریکی بحری بیڑے مستعد کھڑے ہیں جب کہ بحیرہِ قلزم اور باب المندب میں نہ صرف جنگی جہازوں کا اجتماع ہے بلکہ حوثیوں کی گوشمالی کے لیے یمن پر بھی امریکی قیادت میں فضائی حملے ہو رہے ہیں اور دوسری جانب شام اور عراق میں بھی ایران نواز مسلح ملیشیاؤں کے ٹھکانے امریکی فضائیہ کے نشانے پر ہیں۔
اب تو ان مسلح مداخلتوں کو بین الاقوامی قانونی حیثیت دینے کے لیے باقاعدہ اعلانِ جنگ کا تکلف بھی نہیں برتا جاتا۔اس پالیسی کا سب سے زیادہ بوجھ ٹیکس دینے والے امریکی شہری اٹھاتے ہیں۔ ہتھیاروں کی تیاری پر ایک ملین ڈالر کے اخراجات سے سات نئی ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں جب کہ یہی رقم تعلیم اور بچوں کو جیو اور جینے دو کے فوائد بتانے پر خرچ کی جائے تو بیس نئی ملازمتوں کا بندوبست ہو سکتا ہے۔
طاقت خلا میں استعمال نہیں ہوتی۔اس کا جواز پیدا کرنے کے لیے پروپیگنڈے، جاسوسی، اقتصادی دباؤ، پالیسی سازوں کی خرید اور اس کے جوابی نقصانات اور پھر ان نقصانات کی بھرپائی اور بدنامی پر جو اخراجات آتے ہیں وہ الگ ہیں۔حالانکہ ان کا شمار بھی عسکری اخراجات میں ہونا چاہیے۔اس کا کیا علاج کہ جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو اسے ہر شے کیل نظر آتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس