میری محبتوں کامرکز، میری خوشی کا محور میری بہار رُت گُم ہو گئی ہے ۔ یوں تو ہر وقت یہ میرے احساس میں رچی رہتی ہے لیکن میرے ملک میں یہ سال میں دو بار میرے صحن میں آتی تھی، میرے وجود اور میرے ماحول کو ایسے تروتازہ اور مالا مال کر کے جاتی تھی کہ میں زندگی اور موسموں کی تلخیوں کے مقابلے کیلئے اس کی توانائیاں خود میں ذخیرہ کر لیتی تھی ۔ اب کئی سال سے میں اس کا رستہ دیکھتی اس کو خوش آمدید کہنے کیلئے دعائیں کرتی اور بے تاب رہتی ہوں ، میری آنکھیں، صحن اور ماحول اس رُت کو دیکھنے کو ترس گئے ہیں ۔ سوچتی ہوں بہار رُت کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گئی ہے ۔ یا شاید جبر کے ضابطے اسے میرے آنگن میں داخل نہیں ہونے دے رہے ، کچھ سال سے موسم کی بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ رات کو سخت سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے سوتے ہیں تو اگلے دن سورج ایسی ظالم دھوپ کی شعاعیں پھینکتا ہے کہ در و دیوار ہانپنے لگتے ہیں، ڈائننگ میز پر رکھی چیزیں اچانک بڑھنے والے درجہ حرارت کے پریشر کُکر میں گل سڑ جاتی ہیں،موسمیاتی تبدیلی کے باعث یوں تو کئی ان ہونیاں ہماری چوکھٹ پر آن بیٹھی ہیں مگر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ہم سے ہماری وہ بہار رُت چِھن گئی ہے ، جو ہمیں گنگنانے اور مسکرانے کی کیفیت عطا کرتی تھی وہ رُت جس میں وجود کا شجر سرمستی کی کیفیت میں جھومنے،مہکنے اور چہکنے لگتا تھا ، شاخیں باہیں کھول کر پورے ماحول کو رقص میں شامل کرلیتی تھیں،ہواؤں میں اُڑتے پرندوں سے چھیڑخانی کرتی تھیں ۔اصل میں بہار کا موسم معتدل موسم ہوتا ہے جو وجود اور ماحول کے درمیان رابطے کو سازگار بناتاہے اور انسان فطرت کے ساتھ صحیح معنوں میں ہم آہنگ ہوتا ہے ، سخت سردی فرد کو سُکیڑ کر رکھ دیتی ہے اور شدید گرمی حبس سے بے حال کر دیتی ہے تو وہ درختوں، سبزے، تاروں اور چاند سے دور ہو کر اپنی پناہ گاوں میں چھپنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بہار رُت آسمان کی چھت تلے پھیلے وسیع صحن میں اٹکھیلیاں کرنے کی رُت ہے اس لئے سب کو بھلی لگتی ہے۔
کائنات کے صحن میں خوشبوؤں کا چھڑکاؤ ہوتا ہے، زمین میں دُبکے پودے انگڑائی لے کر نمودار ہوتے ہیں، دھرتی پر سبزے کا قالین بچھا کر گلوں کی نمائش اور رنگوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔اس رُت میں انسان سمیت کائنات کی ہر مخلوق بلکہ پورا ماحول عجیب توانائی، سرشاری اور سر خوشی محسوس کرتا ہے، نمو صرف پھول پودوں میں نہیں بلکہ احساسات، جذبات میں بھی خواہشوں کی بیلیں پُنگرتی ہیں، تخیل پر نئے جہانوں کے اسرار وا ہو تے ہیں۔سب کو کائنات کے صحن میں پھیلے گند اور ذہن میں پلتی آلودگی کو صاف کر کے بہار رُت کو واپس لانے کیلئے جدوجہد کرنا ہو گی کیونکہ بہار رُت کے معتدل موسم کی طرح ہمارے معتدل رویے بھی ہم سے بِچھڑ گئے ہیں۔ہم شدید محبت اور شدید نفرت کا شکار ہوتے جارہے ہیں ،جہاں سامنے والے کو اختلاف اور انکار کی گنجائش دینے کو تیار نہیں، یہ رویے ہمیں محدود کرتے جارہے ہیں، ہم انسان ہیں گھروں کی فصیلوں میں بند قیدی نہیں۔
ہماری برداشت اور قبولیت کی حس ختم ہوتی جارہی ہے جو خطرے کا آلارم ہے کہ اس کا انجام ہماری تنہائی اور بے چارگی ہوگا، غیر معتدل رویے ہر نسل کو متاثر کر رہے ہیں ،فطرت انسان کی ازلی دوست ہے ، ہمارا وجود اس کا حصہ ہے، خود کو اس سے دور کر کے ادھورے پن اور تشنگی کو مت اپنائیے ، فطرت کی سادگی، خوبصورتی اور دریادلی اپنانے کی ضرورت ہے، وہ کسی کو اپنی سہولتوں سے محروم نہیں کرتی۔ سب کے ساتھ ایک سی چاہت رکھتی ہے مگر اب اس کا دم گھٹنے لگا ہے ، ہمارے پیدا کردہ مصنوعی پن نے اسے اداس کر دیا ہے ، آئیے فطرت سے دوستی کریں، اس کے ساتھ وقت گزاریں، درختوں، دریاؤں پہاڑوں اور زمین کا لمس محسوس کریں، ان کی بات سنیں ، یقینا ًہم بھی وسعت میں ڈھل کر عظیم تر بنیں گے۔
فطرت ابھی ناراض ہوئی ہے مایوس نہیں ہوئی اس لئے کہ ابھی پھول کھلتے ہیں، بارش ہوتی ہے،فصلیں اُگتی ہیں، مگر ان سب میں ربط کم ہو گیا ہے، اس ربط کو بحال کرنا ہے، مصنوعی پن سے نجات حاصل کرنی ہے۔ فطرت سے ہم آہنگی ہوگی تو رویوں میں فطرت کی سیرت سمائے گی اور ہم وسیع نفاد سے جُڑ کر زندگی کو حسین تر بنائیں گے تو فطرت بھی ہمارے کھوئے موسم اور رُتیں بحال کر دے گی۔ آئیے بہار رُت میلے کا اہتمام کریں ،ہو سکتا ہے بہاربھی آجائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ